کہانی
مختار احمد قریشی
اس دن کی صبح کچھ الگ تھی۔ سورج کی کرنیں اس طرح کھڑکی سے جھانک رہی تھیں جیسے کوئی نرمی سے تسلی دے رہا ہو مگر دل کی دھڑکنیں بےچین تھیں۔ زندگی کے ایک اور امتحان کا سامنا تھا۔
منیر خاموش بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں خالی تھیں، مگر دل میں طوفان تھا۔ چند دن پہلے اسے اس دفتر سے نکال کر دوسرے دفتر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ وجہ؟ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ کچھ افواہیں تھیں، کچھ سرگوشیاں، مگر حقیقت یہ تھی کہ اس نے ہمیشہ ایمانداری سے کام کیا تھا۔ کوئی کوتاہی نہیں کی تھی، کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ مگر شاید وہی ایمانداری ہی اس کی سب سے بڑی “غلطی” بن گئی تھی۔
“منیر، میں نے سنا ہے کہ تمہیں تبدیلی کا آرڈر دیا گیا ہے؟”
راشد نے پرسکون لہجے میں پوچھا۔
“ہاں… سنا تو تم نے ٹھیک ہی ہے۔ سازش ہے۔ شاید میری سچائی کچھ لوگوں کو چبھ گئی۔”
منیر کی آواز میں دکھ نہیں تھا، بلکہ عزم تھا۔
راشد نے ایک لمحہ سوچا، پھر بولا، “دنیا میں ایماندار آدمی ہی آزمائشوں سے گزرتا ہے۔ مگر وہی کامیاب بھی ہوتا ہے۔”
منیر نے سر ہلایا، “ہاں، مجھے یقین ہے۔ میرا اللہ جانتا ہے کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ اور وہی میری نیت کا گواہ ہے۔”
نئے دفتر میں قدم رکھتے ہوئے منیر نے ایک گہری سانس لی۔ وہاں سب کے چہرے نئے تھے، ماحول اجنبی تھا۔ کچھ لوگ حیران تھے کہ ایک فرض شناس، محنتی افسر کو اس طرح کیوں لایا گیا؟ کچھ نے شکی نگاہوں سے دیکھا، کچھ نے سرد مہری سے خیرمقدم کیا۔ مگر منیر نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ وہ جانتا تھا کہ عزت ملتی ہے، بنائی نہیں جاتی۔ وہ جانتا تھا کہ وقت سب کچھ ثابت کرتا ہے۔
پہلے ہی دن اس نے تمام فائلیں خود دیکھیں، کئی رکی ہوئی اسکیموں کو جانچا اور دو دن کے اندر اندر کچھ اہم معاملات حل کئے۔ اس کی رفتار، اس کی لگن اور اس کی باریکی سے جانچنے کی عادت نے جلد ہی سب کی توجہ کھینچ لی۔
“یہ تو واقعی محنتی ہے!” ایک سینئر کلرک نے سرگوشی کی۔
“ہاں، اور بہت سمجھدار بھی۔ مجھے لگتا ہے کہ پچھلے دفتر والوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔” دوسرا بولا۔
وقت گزرتا گیا۔ ہفتے مہینوں میں بدلے اور مہینے سالوں میں۔ منیر نے اس نئے دفتر کو وہ مقام دیا جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیا تھا۔ کارکردگی کی رپورٹ میں اس کے دستخط اب معیار بن گئے تھے۔ اس کے ماتحت عملہ اس سے رہنمائی لیتا تھا اور افسران بالا اس پر فخر کرتے تھے۔
ایک دن وہی افسر جو اس کی تبدیلی کے ذمہ دار تھے، ایک میٹنگ میں اس کی کارکردگی پر تبصرہ کر رہے تھے۔
“منیر نے ثابت کر دیا کہ جس کی نیت صاف ہو اور جو سچائی سے کام کرے، وہ کہیں بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔”
منیر نے یہ بات سنی، مگر اس کے چہرے پر غرور نہیں تھا۔ صرف شکر کا احساس تھا۔
رات کو وہ تنہا بیٹھا دعا کر رہا تھا۔
“یا اللہ، تیرا شکر ہے۔ تو نے میری عزت بچائی، تو نے میری محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیا۔”
اگلے دن جب ایک جونیئر افسر نے اس سے پوچھا،
“سر، آپ نے اتنی سازشوں اور ناکامیوں کے باوجود ہار نہیں مانی، کیوں؟”
منیر مسکرایا، “بیٹا، جس کی نیت ٹھیک ہو اور جس کے دل میں ہمت ہو، وہ کبھی نہیں ہارتا۔ حالات آزمائش دیتے ہیں مگر راستہ بھی وہی اللہ دکھاتا ہے جو دلوں کی نیت جانتا ہے۔”
���
بونیار بارہمولہ ،کشمیر
[email protected]