راؤ اندرجیت سنگھ
بھارت جیسے وسیع و عریض اور متنوع ملک میں ترقی کی اصل پیمائش صرف جی ڈی پی کے اعداد و شمار یا انفراسٹرکچر کی کامیابیوں سے نہیں ہوتی، بلکہ اس سے ہوتی ہے کہ ایک ملک اپنے عوام کی کتنی اچھی طرح پرورش کرتا ہے۔ انسانی سرمایہ یعنی ہماری تعلیم، مہارتیں، صحت، اور پیداواری صلاحیت ،صرف ایک معاشی اثاثہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔گزشتہ دس برسوں کے دوران، بھارت کے اعلیٰ پالیسی تھنک ٹینک نیتی آیوگ کی قیادت میں ایک خاموش مگر مؤثر انقلاب نے جنم لیا ہے، جس نے ملک کے سب سے قیمتی اثاثے — اس کے شہریوں میں سرمایہ کاری کے انداز کو یکسر بدل دیا ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں 65 فیصد سے زائد آبادی کی عمر 35 سال سے کم ہے، وہاں آبادیاتی فائدہ(ڈیمو گرافک ڈیوڈنٹ)ایک نسل میں ایک بار ملنے والا موقع ہے۔ لیکن اس نوجوان آبادی کی وسعت خود ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ اس نوجوان توانائی کو کس طرح معاشی ترقی اور قومی تعمیر کے لیے کارگر قوت میں بدلا جائے۔یہی وہ مقام ہے جہاں نیتی آیوگ نے ایک بصیرت افروز محرک کے طور پر ابھر کر نہ صرف آج کی ترقی بلکہ کل کی خوشحالی کا بھی راستہ متعین کیا ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران، نیتی آیوگ ایک روایتی تھنک ٹینک سے آگے بڑھ کر ایک اصلاحاتی انجن اور عمل درآمد کا شراکت دار بن چکا ہے، جو جراتمندانہ خیالات، ڈیٹا پر مبنی فیصلوں، باہمی تعاون، اور انسان مرکز ڈیزائن کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس نے پالیسی سازی کو ایک بالا سے زیریں(ٹاپ-ڈاؤن)عمل سے نکال کر ایک اشتراکی، متحرک عمل میں تبدیل کر دیا ہے، جس میں ریاستیں، نجی شعبہ، عالمی ادارے اور سول سوسائٹی سب شامل ہیں۔ نیتی آیوگ کی اصل طاقت صرف منصوبہ بندی میں نہیں، بلکہ سننے اور اس سیکھنے کو عملی اقدام میں تبدیل کرنے میں ہے۔
انسانی سرمایہ کی بنیاد تعلیم ہے، اور نیتی آیوگ کی رہنمائی میں اس شعبے کو مکمل طور پر نئے سرے سے تصور کیا گیا ہے۔ صرف رسائیکو کافی نہ سمجھتے ہوئے، نیتی آیوگ نے معیار اور برابری پر زور دیا۔نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 ، جس میں نیتی آیوگ نے کلیدی کردار ادا کیا، تعلیم کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ اس پالیسی نے رٹے پر مبنی تعلیم سے ہٹ کر تنقیدی سوچ، لچکدار نصاب، اور پیشہ ورانہ مہارت کے انضمام پر زور دیا۔اس میں ابتدائی بچپن کی تعلیم، مادری زبان میں تدریس، اور مضامین کے درمیان آسان منتقلی کو بھی اہمیت دی گئی۔
نیتی آیوگ کے تحت اٹل انوویشن مشن جیسے اقدامات کے ذریعے نہ صرف شفافیت کو یقینی بنایا گیا بلکہ تخلیقی سوچ کو بھی فروغ دیا گیا ،جس کا ثبوت ملک بھر میں قائم 10,000 سے زائد اٹل ٹنکرنگ لیبز ہیں، جو اسکول کے بچوں میں جدت طرازی اور سائنسی سوچ کو پروان چڑھا رہی ہیں۔
21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق بھارت کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانا نیتی آیوگ کے مشن کا ایک اہم ستون رہا ہے۔ ’’اسکل انڈیا مشن‘‘ کی حمایت سے لے کر، پسماندہ اضلاع تک پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ’’آسپریشنل ڈسٹرکٹس پروگرام‘‘ کے ذریعے، نیتی آیوگ نے تعلیم اور روزگار کے مابین خلا کو پُر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔اسکل انڈیا مشن کے تحت اب تک 1.5 کروڑ سے زائد نوجوانوں کو تربیت فراہم کی جا چکی ہے۔ ان پروگراموں میں جدید ٹیکنالوجی، صنعتوں سے روابط، اور طلب پر مبنی نصاب کا مؤثر امتزاج شامل ہے، جس نے انہیں صرف تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ عملی طور پر قابلِ روزگار بھی بنایا ہے۔نیتی آیوگ نے صرف روایتی تربیت کو فروغ نہیں دیا، بلکہ مختلف صنعتی شعبوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے ہدفی پروگرام تیار کیے، جنہوں نے بھارت کے دیہی اور شہری نوجوانوں کے لیے حقیقی معاشی مواقع کے دروازے کھولے۔
مزدوروں کے لیے اصلاحات-اس کے ساتھ ہی، نیتی آیوگ نے ایک متحرک اور جامع لیبر مارکیٹ کے تصور کو بھی فروغ دیا۔ اس نے مرکزی سطح کے 44 لیبر قوانین کو سادہ بنا کر چار لیبر کوڈز میں ضم کرنے کی حمایت کی ، جن میں اجرت، سماجی تحفظ، صنعتی تعلقات، اور کام کی جگہ کی حفاظت شامل ہیں۔یہ اصلاحات ایک طرف مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں، تو دوسری طرف آجروں کے لیے لچکدار نظام فراہم کرتی ہیں، جس سے خاص طور پر غیر رسمی شعبے کے کارکنوں کو فائدہ ہوا ہے، جو بھارت کی لیبر فورس کا بڑا حصہ ہیں۔قانونی پیچیدگی کو کم کر کے اور ملازمتوں کی رسمی حیثیت کو فروغ دے کر، نیتی آیوگ نے کام کی جگہ کو صرف زیادہ مؤثر ہی نہیں بلکہ زیادہ انسانی اور وقار سے بھرپور بھی بنایا ہے۔
صحت عامہ، جسے عموماً ایک خرچ سمجھا جاتا ہے، کو نیتی آیوگ نے ایک سرمایہ کاری کے طور پر ازسرِنو متعارف کروایا۔ نیتی آیوگ نے علاج پر مبنی نظام سے ہٹ کر احتیاطی اور فعال تندرستی کی جانب منتقلی میں رہنمائی کا کردار ادا کیا۔اس کی نگرانی اور معاونت سے شروع ہونے والی فلیگ شپ اسکیم ’’آیوشمان بھارت‘‘کے تحت 50 کروڑ سے زائد بھارتی شہریوں کو صحت بیمہ کی سہولت فراہم کی گئی، جبکہ 1.5 لاکھ سے زیادہ ہیلتھ اینڈ ویلنَس سینٹرز کے ذریعے بنیادی طبی خدمات کو نچلی سطح تک مؤثر انداز میں پہنچایا گیا۔ان پروگراموں کا دائرہ صرف علاج تک محدود نہیں رہا بلکہ ان کا ہدف غذائیت، زچہ و بچہ کی صحت، ذہنی بہبود اور غیر متعدی امراض(این سی ڈیز)جیسے اہم شعبوں پر مرکوز رہا، جن کا مقصد صرف بیماروں کا علاج نہیں بلکہ لوگوں کو صحت مند رکھنا ہے۔کووِڈ-19 کے دوران قائدانہ کردارادا کیا۔کووِڈ-19 وبا نے بھارت کے صحت نظام کی مزاحمتی صلاحیت کا سخت امتحان لیا۔ اس نازک وقت میں نیتی آیوگ وزارتِ صحت اورآئی سی ایم آرکے ساتھ مل کروبا کے پھیلاؤ کے رجحانات کو ماڈل بنایا،طبی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایااور ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارم ’’ای-سنجیونی‘‘کو متعارف کروایا۔وبا کے بعد نیتی آیوگ کا وژن صرف بحالی پر نہیں بلکہ پیشگی تیاری پر مرکوز رہا۔ اس نے،پبلک ہیلتھ مینجمنٹ کیڈر کے قیاماور جدید ڈیجیٹل ہیلتھ انفراسٹرکچر کی ترقیپر زور دیا، تاکہ مستقبل میں کسی بھی ممکنہ بحران سے نمٹنے کے لیے صحت کا نظام مزید مؤثر، مستحکم اور ہمہ جہت ہو۔
ان ڈومینز سے ہٹ کر، نیتی آیوگ انٹرپرینیورشپ اور اختراعات کے لیے مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ا سٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا، اور اٹل انوویشن مشن جیسے پروگراموں نے خیالات کو پھلنے پھولنے کے لیے ایک زرخیز ماحولیاتی نظام بنایا۔ فنٹیک، ایڈ ٹیک، ایگروٹیک، ہیلتھ ٹیک، اور کلین انرجی میں ہزاروں اسٹارٹ اپس آج ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اہم مراحل پر پالیسی سپورٹ، انکیوبیشن اور رہنمائی حاصل تھی۔ یہ صرف کاروبار نہیں ہیں۔ وہ ملازمت کے تخلیق کار اور مسائل حل کرنے والے ہیں، جو ایک لچکدار اور خود انحصار ہندوستان میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں۔
لیکن شاید نیتی آیوگ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے ثبوت پر مبنی پالیسی سازی کو ایک ادارہ جاتی کلچر میں ڈھال دیا ہے۔بڑے ڈیٹا، مصنوعی ذہانت، ریئل ٹائم ڈیش بورڈز اور سخت نگرانی کے نظام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، نیتی آیوگ نے پالیسی سازی کو زیادہ مؤثر، جوابدہ اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ بنانے کو یقینی بنایا ہے۔خواہبھارت کا پہلا ایس ڈی جی انڈیکس متعارف کرانا ہو،ریاستوں کی کارکردگی کو میٹرکس کی بنیاد پر جانچنا اور رہنمائی فراہم کرنا،یا پالیسی ڈیزائن کے لیے طرزِ عمل کی بصیرتکو بروئے کار لانا ہو،نیتی آیوگ نے سائنسی سوچ اور ڈیٹا پر مبنی تجزیے کو گورننس کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہی وژن بھارت کو زیادہ شفاف، مؤثر اور مستقبل شناس حکمرانی کی جانب لے جا رہا ہے۔
نیتی آیوگ کی وزارتوں اور مختلف شعبوں کے درمیان مؤثر رابطہ کاری کی صلاحیت نے اسے محض ایک مشاورتی ادارہ نہیں، بلکہ قومی ترقی کا ایک بااختیار’’ضمیر‘‘ بنا دیا ہے۔اس نےکارکردگی پر مبنی درجہ بندیوں کے ذریعے ریاستوں کے درمیان مثبت اور صحت مند مقابلے کو فروغ دیا،سول سوسائٹی کے اداروں کے ساتھ اشتراک کر کے سماجی سطح پر خاموش آوازوں کو مرکزی پالیسیوں تک پہنچایااور بین الاقوامی شراکت داروں کو شامل کر کے دنیا بھر کی بہترین پالیسی مثالوں کو بھارت کے مقامی تناظر میں ڈھالا۔بھارت کی گلوبل انوویشن انڈیکس میں مسلسل بہتری، اور اقوام متحدہ، عالمی بینک، یونیسکو جیسے ممتاز عالمی اداروں کی جانب سے اعتراف اور ستائش ان تمام کاوشوں کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔
نیتی آیوگ نے صرف اہداف کے حصول کو ہی مقصد نہیں بنایا، بلکہ ایسے نظام تشکیل دینے پر توجہ مرکوز کی ہے جو پائیدار، جامع اور مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔پائیدار ترقی کے اہداف(ایس ڈی جیز)سے اس کی گہری وابستگی ہر پہلو میں نمایاں ہے،
چاہے بات ہوصاف توانائی کی منتقلی کی،ماحولیاتی طور پر ذمہ دار نقل و حرکت (گرین ٹرانسپورٹ) کی،ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کی تعمیر کی،یا کاروباری ماحول اور ورک اسپیس میں صنفی مساوات کے فروغ دینےکی،نیتی آیوگ کی پالیسیاں ایک ایسے بھارت کا خاکہ پیش کرتی ہیں جو نہ صرف ترقی پذیر ہو، بلکہ پائیدار، مساوی اور اختراعی بھی ہو۔
علم پر مبنی معیشت کے طور پر بھارت کا عروج اب کوئی دیرینہ خواب نہیں رہا،یہ ایک جاری سفر ہے، جس کی بنیاد اُن پالیسیوں پر ہے جو عوام کو ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ تسلیم کرتی ہیں۔نیتی آیوگ نے ترقی کے تصور کو ایک نئی سمت دی ہے۔ اس نے ہمیں یہ احساس دلایا ہے کہ حقیقی ترقی کی پیمائش اونچی عمارتوں یا بڑے کارخانوں سے نہیں، بلکہ عوام کی طاقت، صحت اور وقار سے ہوتی ہے۔یہ ادارہ اب صرف
ایک’’تھنک ٹینک‘‘ نہیں رہا، بلکہ ایک نوجوان، پرعزم اور باحوصلہ بھارت کی دھڑکن بن چکا ہے ۔ ایک ایسا بھارت جو خواب دیکھتا ہے، حوصلہ کرتا ہے، اور عمل کرتا ہے۔اس پوری کہانی کے مرکز میں ایک پُرسکون لیکن پختہ اعتماد موجود ہے،جب آپ انسانوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو آپ صرف ایک مضبوط معیشت نہیں، بلکہ ایک بہتر، باوقار اور پائیدار قوم کی بنیاد رکھتے ہیں۔
(مضمون نگارمرکزی وزارت شماریات و پروگرام نفاذ کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ہونے کے علاوہ، وزارت منصوبہ بندی اور وزارت ثقافت میں بھی وزیر مملکت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔مضمون بشکریہ پی آئی بی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔