ایک ایسے وقت میں جبکہ کشمیر میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں مرکزی حکومت نے جموںوکشمیر میں مذاکراتی عمل کی از سر نو شروعات کرنے کےلئے انٹلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر دنیش شرما کو مذاکرات کار تعینات کرکے مسئلہ کشمیر کے تمام فریقین کے ساتھ با ت چیت شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ نے یہ اعلان کرتے ہوئے اس بات کاعندیہ بھی دیا ہے کہ نئے مذاکرات کو فریقین کا تعین کرکے ان سے بات چیت کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، نیز وہی بات چیت کے طریقہ کار کا بھی تعین کرینگے۔ اس طرح وزیر داخلہ نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ نیا سلسلہ ماضی کے مذاکراتی سلسلہ سے مختلف ہوگا، کیونکہ ماضی میں جو بھی ٹیمیں تعینات کی گئیں اُنہیں انکی حدود مقرر کرکے دے دی گئی تھیں۔اس عنوان سے دیکھا جائے تو یہ ضرور ایک مثبت قدم ہے لیکن جہاں تک فریقین کی شناخت کا تعلق ہے تو انکی وضاحت نہ کرکے موضوع کو کُھلا رکھا گیا ہے ، جو مستقبل میں کسی بھی وقت حالات اور صورتحال کے زیر اثر نت نئے ذاویئے اختیار کرسکتا ہے۔لہٰذا سنجیدہ فکر حلقوں کی جانب سے پریشانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ مذاکراتی عمل پر مرکزی حکومتوں کا ماضی میں بھی نہایت ہی غیر سنجیدہ رویہ رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا وجہ تھی کہ 2010ایجی ٹیشن ، جسکے دوران کشمیر میں خاک و خون کی ہولی کھیلی گئی اور 120شہری ہلاکت کا شکار ہوئے تھے، کے بعد اس وقت کی یو پی اے سرکار کی جانب سے دلیپ پڈگائونکر، ایم ایم انصاری اور رادھا کماری پر مشتمل مذاکراتی ٹیم تشکیل دے کر بات چیت کے عمل کی شروعات کی تھی، لیکن بعد اذاں اس کمیٹی نے کشمیر حل کے حوالے سےجو رپورٹ پیش کی اور اسمیں جو سفارشات مرتب تھیںوہ سات سال سے گرد چاٹ رہی ہیں۔ ان سفارشات میں ریاست کی اُس اٹانومی کی بحالی پر زور دیا گیا تھا، جس کو مختلف مرکزی قوانین کی آڑ لیکر ماضی میں مختلف حکومتوں نے رفتہ رفتہ مسخ کرکے اس مقام پر پہنچا دیا کہ ماہرین کے مطابق اس کا اب فقط نام باقی رہ گیا ہے، جبکہ اُس نام کو بھی حرف غلط کی طرح مٹانے کےلئے اب عدلیہ کا سہار الینے کا عمل جاری ہے۔ اسی طرح ریاستی حکومت نے ماضی میں ڈاکٹر فاروق کی قیادت میں اٹانومی کی بحالی کےلئے ریاستی اسمبلی کے اندر بہ اتفاق رائے ایک قرار داد منظور کرکے مرکزی حکومت کو بھیج دی تھی لیکن بجائے اسکے اسکی عمل آور ی کے امکانات کا جائزہ لیا جاتا، اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے اُسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ یہ ایسے تلخ تجربات ہیں، جنہوں نے نہ صرف ریاستی عوام بلکہ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو بھی اس عمل سے بدظن کر دیاہے، کیونکہ جب تک مذاکراتی عمل میں دیانتداری اور خلوص نیت کا عمل شامل نہ ہو اس پر عوامی اعتبار پیدا ہونا مشکل ہے۔ وزیر داخلہ نے اگر چہ یہ بات کہی ہے کہ نامز مذاکرات کا ر دنیشور شرما کو فریقین کے تعین کا اختیار حاصل ہوگا اور انہیں جموںوکشمیر میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ آسام کے جنگجو گروپوں کے ساتھ بھی مذاکرات کا تجربہ حاصل ہے، لہٰذا اس حوالے سے یہ امید باندھی جارہی ہے کہ وہ سبھی فریقین سے مخاطب ہونے کی کوشش کرینگے ۔ مگر کیا انہیں مرکزی حکمران اتحاد سے وابستہ اُن سیاسی گروپوں کے دبائو کا سامنا نہیں ہوگا، جو حریت کانفرنس کو فریق ماننے سے نہ صرف انکاری ہیں بلکہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ریاست میں مزاحمتی سیاست کا توڑ کرکے حریت کی سیاسی مکانیت مسدود کرنے میں ہی مسئلے کا حل موجود ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے مسئلہ کے فریقین ہونے سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے جبکہ ریاست کا ایک حصہ اسکے کنٹرول میں ہے۔یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے کہ کیا پاکستان کے ساتھ بھارت کے کشیدہ تعلقات اس مذاکراتی عمل پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ ان تمام سوالات نے سنجیدہ فکر حلقوں کو پریشان کر کے رکھا ہے، لہٰذا کوئی حلقہ اپنی جانب سے ایک متعین رائے پیش کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔ فی الوقت صرف یہی اُمید کی جاسکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے تمام فریقین عقل و دانش سےکام لے کر مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں اور اسے مضبوط بنیاد فراہم کرنے کےلئے ہندپاک تعلقات میں بہتری پیدا کئے جانے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ نئی دہلی اس سمت میں بھی متحرک ہونے کی کوشش کریگی۔