ہندوپاک کے درمیان سرحد ی کشیدگی ،آپریشن آل آئوٹ ، این آئی اے کارروائیاں ،مذاکرات کار کی نامزدگی ،خونی ضمنی پارلیمانی چنائو ، جی ایس ٹی کے نفاذ ،60ہزار عارضی ملازمین کی مستقلی اورنیشنل ہیلتھ مشن ،پلس ٹو کنٹریکچول لیکچراروں،ایم جی نریگا و ساکشر بھارت مشن ملازمین کی کام چھوڑ ہڑتال ، سنگ بازوں کیلئے عام معافی ،دفعہ 35اے پر سیاسی طوفان، آر پار تجارت اور بس سروس پر بندشیں ،وادی میں طلباء کے احتجاج اور مرکزی حکومت کے جواب میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے تند و تیز بیانات کے ساتھ سال 2017کا اختتام ہوگیا اور اب 2018کی صورت میں ایک نیا سال آج سے شروع ہورہاہے ۔ نئے سال کی آمد پر جہاں لوگوں میں خوشیاں پائی جارہی ہیں اورانہیں اس برس سے کئی امیدیں وابستہ ہیں وہیں پچھلے سال کی کچھ تلخ یادیں ان کے خدشات میں اضافہ بھی کررہی ہیں ۔ بے شک ریاست میں امن بحالی کے مقصد سے مرکزی حکومت کی طرف سے بیتے برس کے اواخر میں انٹیلی جنس بیرروکے سابق سربراہ دنیشور شرما کی نامزدگی عمل میں لائی تاہم ماضی کی طفل تسلیوںاور ان کی سرگرمیوں کے مبہم دائرہ کار کو دیکھتے ہوئے ان کے ریاست کے دوروں سے لوگوں کی اُمیدیں معدوم ہونے لگی ہیں۔دنیشور شرما کی نامزدگی اپنی جگہ لیکن جموںو کشمیر کے سیاسی حل کیلئے ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور ماسوائے 4500سنگ بازوں کی عام معافی کے ، حکومت کی طرف سے اعتماد سازی کے ایسے اقدامات نہیںکئے گئے جن سے کشمیر کے اندر اعتماد کی فضا بحال ہوسکے تاکہ آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہو۔ اس غیر سنجیدہ فضا کو دیکھتے ہوئے بیشتر حلقے ، خواہ وہ مین اسٹریم ہو یا مزاحمتی،دنیشور شرما کی نامزدگی کو وقت گزاری سے تعبیر کررہے ہیں کیونکہ ماضی میں ورکنگ گروپس اور مذاکرات کارو ں کی رپورٹوں کا حشر سب کے سامنے ہے ۔اگر مرکزی حکومت نے کشمیرکے سیاسی حل کی خاطر سنجیدگی سے کوششیں نہ کیں اور آپریشن آل آئوٹ اور این آئی اے کارروائیوںپر ہی اکتفا رکھاتو یقینا نئے سال میں بھی کچھ زیادہ بدلتا ہوا نظر نہیں آتا اورریاست کے اندر کے حالات بھی تبدیلی ہونےکی امید کرنا مشکل ہے۔جبکہ حد متارکہ اور بین الاقوامی سرحد پر کشیدگی کا ماحول بھی کم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔سرحدی کشیدگی کے حوالے سے 2017کا سال کافی تلخ ثابت ہواہے اور سرحدی مکینوں کو نہ ہی دن میں چین ملاہے اور نہ ہی ان کی رات آرام سے گزر ی ہے ۔اس کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے دونوں ممالک کی فوجی اور سیاسی قیادت کو سنجیدگی دکھاناہوگی نہیں توآج سے شروع ہوچکا نیا سال بھی حد متارکہ اور بین الاقوامی سرحد کے قریب بسنے والے لوگوں کیلئے مصائب وآلام کا باعث ہی بنناہے ۔اسی کشیدگی کی وجہ سے گزرے برس کئی ماہ تک آرپار تجار ت اور بس سروس کو معطل ہوناپڑاتھا جس پرایسی صورتحال میں کالے بادل آج بھی منڈلارہے ہیں۔ 2017کا سال ریاست کے 60ہزار عارضی ملازمین کیلئے اچھا رہااور حکومت نے ایس آرا و 520جاری کرکے ان کی دیرینہ مانگ پورا کرتے ہوئے کچھ حد تک ان ملازمین کو راحت بخشی تاہم ان کے ساتھ بھی مکمل طور پر انصاف نہیںہوا جبکہ انہی کی طرح پچھلے کئی کئی برس سے عارضی بنیادوں پر کام کرنے والے نیشنل ہیلتھ مشن ، ایم جی نریگا ، ساکشر بھارت مشن و دیگر پروگرامووں کے تحت کام کرنے والے ملازمین کے مطالبات نظرانداز کردیئے گئے جس کے نتیجہ میں این ایچ ایم اور ساکشر بھارت مشن ملازمین نئے سال کی آمد پر بھی سراپا احتجا ج ہیں جبکہ ایم جی نریگا ملازمین دو مہینے کی مدت پوری ہونے کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ محکمہ دیہی ترقی و پنچایتی راج کی طرف سے ان کے مطالبات پر غور کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اپنی رپورٹ دو ماہ کے اندر پیش کرے گی ۔پچھلے سال کی یادیں فراموش کرکے ریاستی حکومت کو تمام عارضی ملازمین کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے جاب پالیسی مرتب کرنی چاہئے اور بڑھتی جارہی بیروزگاری کو ختم کرنے کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں جس پر موجودہ حکومت انتخابات کے دوران کئی بار وعدے بھی کرچکی ہے ۔بدقسمتی سے عارضی ملازمین کو وقت پر تنخواہیں بھی نہیں ملتی ۔حالانکہ گزشتہ بجٹ اجلاس کے دوران حکومت نے یہ اعلان کیاتھاکہ مارچ 2017سے عارضی ملازمین کو بروقت تنخواہیں دی جائیںگی لیکن اس اعلان پر بھی تاحال عمل درآمد نہیںہو ااور انہیں ان تنخواہوں کیلئے کئی کئی مہینوں انتظار کرناپڑتاہے ۔ترقیاتی محاذ پر بھی 2017کاسال یادگار ثابت نہیںہوا اور نہ ہی مغل شاہراہ اور کشتواڑ سنتھن ٹاپ سڑکوں پر ٹنلوں کی تعمیر کی خاطر عملی سطح پر اقداما ت شروع ہوئے اور نہ ہی دیگرایسے بڑے پروجیکٹوں پرکام شروع ہوسکا جن کا موجودہ حکمران اتحاد نے حکومت تشکیل دینے سے قبل اپنے کم از کم مشترکہ پروگرام اور اس سے قبل الیکشن میں باربار اعلان کیا ۔چونکہ موجودہ حکومت کواقتدار میں اب تین برس ہوچکے ہیں اس لئے امید کی جانی چاہئے کہ نئے سال میں اعلانات اور یقین دہانیاں کم اور عملی اقدامات زیادہ ہوںگے اور اسی سال میں ٹنلوں کی تعمیر بھی ہوگی ،این ایچ پی سی سے بجلی پروجیکٹوں کی واپسی کے معاملات بھی طے ہوںگے جبکہ جموں سرینگرفورلین اور ریلوے پروجیکٹ کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے اورجموں پونچھ و سرینگر کپوارہ ریل لائنوں کیلئے لازمی اقدامات کئے جائیںگے ۔گزرے سال سیاحتی ترقی کے وعدے بھی پورے نہیںہوسکے اور شعبہ سیاحت شدت کے ساتھ روبہ زوال ہے۔ریاستی عوام کو سیاسی ، اقتصادی اور سماجی سطح پر درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ نئے سال میں کرنے کیلئے بہت کچھ ہے تاہم اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس سال کے 365ایام کا استعمال کیسے کرے گی اور کس طرح سے ان چیلنجز کا مقابلہ کیاجائے گا جنہوںنے آج نہیں بلکہ کئی دہائیوںسے ریاستی عوام کو اپنے پنجہ استبداد میں جکڑاہواہے ۔