ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
کتاب و سنت ایک ایسا منبع منزہ ہے جو ایک مسلمان کی ہر قدم پر رہنمائی کرتا ہے غم اور خوشی کے حدود بھی شریعت نے متعین کیے ہیں خوشیوں کو منانے اور تہواروں کے دن لطف اندوز ہونے کا انداز و سلیقہ بھی متعارف کرایا ہے دنیا کےتمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے جن سےنیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے۔ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنےکی وجہ سے ان میں ایسی خرافات بھی شامل ہوگئی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت جاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی انسانوں نےکلچر اور فیشن کےنام سے نئے نئے جشن اور تہوار وضع کئے،انہی میں سے ایک نئے سال کاجشن ہے ۔ مسلمانوں کااپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریمؐ کی ہجرت سے مربوط ہے، جس کا آغاز محرام الحرام سے ہوتا ہےیہی اسلامی کلینڈر ہے، لیکن افسوس تو یہ ہےکہ ہم میں سےاکثرکو اس کاعلم بھی نہیں ہو پاتااور مسلمان اس حدیث کی بنا پر نئے سال کی مبارک باد دینے کو جائز سمجھتے ہیں ’’نئے سال یا مہینے کی آمد پہ صحابہ کرام ؓایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے: اے اللہ! ہمیں اس میں امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ داخل فرما۔ شیطان کے حملوں سے بچا اور رحمٰن کی رضامندی عطاء فرما۔‘‘(طبرانی) نیا سال منانے والے اور اسکی مبارک باد دینے والے الله کے نبی کی یہ حدیث یاد رکھیں’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ کل قیامت کے دن انہیں میں شمار ہوگا‘‘(ابو داؤد) نئے سال کا تہوار عیسایئوں کا ہےمسلمانوں کا نیا سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے۔
یہ مختلف طر ح کے جشن یہود و نصاری اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں، جیسے،مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے اور ٹیچرس ڈے وغیرہ۔ اس لیے کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا، اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں جن میں ان تمام رشتوں کا دکھلاوا ہوسکے۔ مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے، اسلام نے سب کے حقوق مقرر کردیے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے۔ اس لیے نہ ہمیں ان دکھلاؤوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی مختلف طرح کے ڈے منانے کی۔بلکہ مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے،تاکہ دوسری قوموں کی مشابہت سے بچا جاسکے، اس لیے کہ حضور اکرم ؓ نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ اورقرآن مقدس میں ارشاد ربانی ہے:’’اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔(سورہ نساء) اور حضور اکرمؐ: ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے‘‘۔(ابوداودشریف)
اب سوال یہ ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کو کیا رویّہ اختیار کرنا چاہیے جو قرآن و احادیث کی روشنی میں صحیح ہو؟اس سلسلے میں حدیث کی بعض کتابوں میں یہ روایت نگاہوں سے گذری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسولؓ ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تھےکہ’’ اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی، نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما‘‘۔(طبرانی)اس دعا کو پڑھنا چاہیے نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصا کر نے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں کہ لیجیے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے : (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں، اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے، لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا۔ اسی لیے نبی کریمؐکا ارشاد ہے کہ’’ تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے‘‘۔(ترمذی شریف)
ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا موٴاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے، اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔ اسی کو اللہ جل شانہ نے اپنے پاک کلام میں ایک خاص انداز سے ارشاد فرمایا ہےکہ’’ اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے ،تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجاوٴں ۔ اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو، اس سے اللہ تعالی اچھی طرح باخبر ہے۔‘‘(سورہ منافقون)
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟ انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی، اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔ نبی کریم ؐ کا ارشاد ہےکہ’’ پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (مشکوتہ شریف)۱۔ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے،۲۔ اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے،۳۔ اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے،۴۔ اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے،۵۔اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
افسوس صد افسوس! یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے، اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے، اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں،بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔
<[email protected]>
نیا سال اور مسلمان ۔تجزیہ اور جائزہ ذراغور کرو
