مومن فہد عبد الرحمن
نیا سال دنیا بھر میں ایک ایسا موقع سمجھا جاتا ہے جو خوشیوں، جشن اور اُمیدوں کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ 31 دسمبر کی رات کو رقص و سرور، آتش بازی اور نئے عہد و پیمان کے ساتھ خوش آمدید و استقبال کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس جشن کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ واقعی ایک خوشی کا موقع ہےیا اس کے پیچھے کوئی روتی حقیقت اور گہری سرگزشت چھپی ہوئی ہیں؟ نیا سال منانے کا اسلامی پہلو، اس کا تاریخی پس منظر اور اس کی موجودہ حقیقت کیا ہے؟
نیا سال منانے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ قدیم رومی اور فارسی تہذیبوں میں بھی سال کے آغاز پر تہوار منائے جاتے تھے۔ رومی کیلنڈر کے مطابق جنوری کے مہینے کا آغاز دیوتا ’’جانوس‘‘ سے منسلک کیا جاتا تھا، جس کے دو چہرے تھے: ایک ماضی کی طرف دیکھتا تھا اور دوسرا مستقبل کی طرف۔ یہ تہوار اس بات کی عکاسی کرتا تھا کہ انسان اپنی ماضی کی غلطیوں کو یاد کرے اور مستقبل کے لیے نئے ارادے باندھے۔
اسلامی تاریخ میں، ہجری کیلنڈر کے آغاز کا تعلق حضور اکرمؐ کی مدینہ کی طرف ہجرت سے ہے، جو اسلامی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ ہجری کیلنڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے، جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مقدس اور عبادات کے لیے مخصوص وقت ہے ۔
اسلام ایک جامع مذہب اور طرز زندگی ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو بیان کرتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے، وقت اور سال کا اختتام یا آغاز کوئی بے مقصد عمل نہیں ہے بلکہ ایک مؤمن کے لیے محاسبۂ نفس، خود میں تبدیلی لانے کا،کمزوریوں پر قابوں پانے اور نیے اہداف و مقاصد کے حصول اور توبہ کا موقع ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “وَالْعَصْرِ، إِنَّ الإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ” (سورۃ العصر) یہ آیت وقت کی قدر و قیمت اور انسان کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ہر گزرنے والا لمحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اپنے خالق کی رضا کے لیے اپنی زندگی کو بہتر بنائیں۔آج کل نیا سال منانے کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسلامی تعلیمات سے بالکل متضاد ہے۔ نیا سال منانے کے دوران بہت سا وقت اور مال فضول خرچی میں ضائع ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان تقریبات میں اسلامی تعلیمات کے برعکس غیر اسلامی نظریات و روایات کا فروغ نظر آتا ہے، جو ایک مسلمان کے لیے کسی طور مناسب نہیں۔
ہر سال عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ happy new year کے celebration میں مسلمانوں کی تعداد میں اچھا خاصہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے مفتیوں اور مولویوں کی طرف سے بھی یہی بیانات سننے ملتے ہیں کہ یہ اسلامی شرعی اعتبار سے بدعت ہے اور بدعت سیئه ہے۔ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اسلامی نیا سال حضرت حسینؓ کی اسلام کے خاطر اپنی جانثاری کے حسرت و ندامت سے بھرا ہوا واقعہ ہے اور ماہ آخر حضرت ابراہیم ؑ کی حضرت اسماعیلؑ کو الله کی بارگاہ میں قربان کرنے والا بھی دُکھ بھرا واقعہ ہے جو ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ سال نو منانے سے گریز و پرہیز کیا جائے۔ تو ہمیں چاہیے کہ ان سب چیزوں سے خود دور رہے اور اور وں کو اس سے دور رہنے کی ہدایت دے۔
ایک مسلمان کے لیے نیا سال ایک موقع ہے کہ وہ اپنے ماضی پر غور کرے اور اپنی زندگی کو اللہ کے حکم اور نبی کریمؐ کے بتاے ہوئے راستے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ نیا سال منانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے گزشتہ اعمال کا جائزہ لیں، اپنے گناہوں پر توبہ کریں کیونکہ رب قدیر کہتا ہے کہ ’’جبل احد کے برابر یا سمندر کے برابر بھی کسی کے گناہ ہو تو میں معاف کر دونگا ۔‘‘اور بالا خیریہی درخواست ہے کہ ہمیں یہ جشن منانے سے دوری رکھنا چاہیے اور اسلام پر آنے والی ایسی تهمت و بدعت سے اپنے آپ کو اور اپنے اسلام کی حفاظت کرنی چاہیے گزشتہ سال کے کئے ہوئے گناہ اور بد فعال پر تحسر و ندامت کرنا چاہیے اور اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگنی چاہیے کیونکہ یہ ایسا دَر ہے جہاں سمندر کے مثل بھی گناہ ایک بار ہاتھ اٹھانے سے معاف کر دیے جاتےہیں۔