عبدالرشید شاداب
بشیر کی زندگی، اس کی گندمی رنگت کی طرح نہ نکھری تھی اور نہ ہی بالکل دھندلی ہو گئی تھی۔ وہ کشمیر کے ایک دور افتادہ پہاڑی گاؤں میں رہتا تھا۔ پیشے سے تو وہ ایک زمیندار تھا، پر چار کنال کی آبائی زمین کو وہ صرف نام کی ملکیت سمجھتا تھا۔ حقیقی زمیندار تو اس کا مرحوم باپ تھا۔ بشیر کے ہاتھوں میں قینچی اور استرے کی کاٹ تھی، زمین کی مٹی کی نہیں، اس لئے زمین داری کے ساتھ ساتھ اس نے گاؤں میں نائی کا کام بھی اپنا رکھا تھا۔
بشیر کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ حد سے زیادہ چرب زبان تھا اور باتونی طبیعت کے پردے میں وہ کام سے اللہ واسطے کا بیر رکھتا تھا۔ زمین کا حال یہ تھا کہ جہاں اس کا باپ دن رات محنت کر کے سال بھر کا رزق نکالتا تھا، وہ بمشکل دو تین مہینوں کی ضرورت پوری کرتا۔ پھر ہاتھ جھاڑ کر کہتا، “قرض لینا بھی تو ایک ہنر ہے، راجہ! تُو نہیں سمجھے گی۔”
راجہ، اس کی بیوی، صرف سر ہلاتی اور ایک سرد آہ بھر کر اپنی چادر کا آنچل ٹھیک کرتی۔ وہ بشیر کی باتوں کا توڑ جانتی تھی، محنت مزدوری اور گاؤں کے چوکیدار کی بیوی سے کبھی کبھار بھیک مانگ کر گھر چلانے میں بشیر کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ بشیر کا حال یہ تھا کہ رفتہ رفتہ زمین بیچنے کا عادی ہو گیا اور چوری چکاری میں بھی ہاتھ صاف کرنے لگا تھا۔ راجہ کو اس سب سے گھٹن ہوتی تھی مگر وہ اپنے پانچ بچوں کے لئے خاموش تھی۔
ان کا بڑا لڑکا، اسلم، باپ کی ہو بہو نقل تھا۔ وہی الجھے ہوئے بال، وہی نکما پن،وہی پیلے پیلے دانت اور وہی کام چوری۔ اسلم نے تعلیم ادھوری چھوڑی اور ایک دن ہمیشہ کے لیے اسکول سے بھاگ آیا۔ باپ نے تنگ آکر، اس امید پر کہ شاید ذمہ داری سے سدھر جائے، اس کی شادی کر ادی۔
شادی کے بعد، اسلم اور اس کی نئی نویلی دلہن نے اس پرانے ٹوٹے پھوٹے مکان میں قدم رکھا جو بشیر کی نالائقی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اسلم کو تب پہلی بار شرمندگی کا احساس ہوا اور اس شرمندگی نے ایک نیا خواب بُنا: ایک مضبوط، کشادہ، اور نیا مکان۔
اسلم نے محنت شروع کر دی۔ دن بھر مزدوری کرتا، رات کو تھکا ہارا آتا، لیکن مہنگائی اور مزدوری میں تفاوت کے باعث نئے مکان کی تعمیر کے لئے کافی پیسہ جمع کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مہینے گزرے، بچت کا ڈبہ خالی رہا اور مکان کا خواب ٹوٹنے لگا۔
پھر ایک دن گاؤں میں منادی ہوئی کہ سرکار نے خط افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والے لوگوں کے لیے پردھان منتری آواس یوجنا (PMAY-G) اسکیم شروع کی ہے۔ اسلم کا نام مستحقین کی فہرست میں آ گیا۔
سہارے کی ایک کرن دکھائی دی۔ اسکیم کے تحت سرکار نے ڈھائی لاکھ روپیہ فراہم کرنا تھا، جو ان کے لئے ایک بڑی رقم تھی۔ بشیر نے ہنس کر کہا، “دیکھا راجہ؟ میرا تو خواب ہی یہی تھا کہ زمین نہ بیچوں، سرکار سے ہی مکان بنوا لوں۔” مگر راجہ اور اسلم جانتے تھے کہ یہ محض بشیر کی خام خیالی ہے۔
اسلم کو اب ایک جلدی تھی۔ اس نے اونچے خواب دیکھے تھے، اس نے نقشہ بڑے مکان کا بنوایا تھا، لہٰذا اسی کے مطابق مکان کی بنیاد ڈال دی۔ سرکاری امداد کی پہلی قسط آئی تو کام تیزی سے شروع ہوا، دیواریں کھڑی ہوئیں اور اسلم کی آنکھوں میں خواب پھر سے چمکنے لگا۔
مگر ڈھائی لاکھ روپیہ تو وقتاً فوقتاً چھت کی تکمیل پر ہی ملنا تھا ۔اسلم کے مکان کا ڈھانچہ کھڑا ہو چکا تھاسلیب ڈالنا باقی تھی کہ ساری رقم ختم مگر قرض دار مزدور ہر صبح تقاضا لے کر دروازے پر کھڑے ہو جاتے۔ بشیر تو باتونی تھا مگر قرض داروں کے سامنے اس کی زبان بھی گنگ ہو جاتی۔ اسلم دن رات پسینہ بہاتا رہا مگر قرض کا بوجھ بڑھتا گیا۔ ایک آدھ نامکمل مکان، گاؤں میں ان کی ندامت کا نشان بن چکا تھا۔
ایک شام، اسلم نے مکان کے ادھورے ستون کو چھوا۔ وہ اس کا خواب تھا، جو اسے شرمندگی کے اندھیرے سے نکال سکتا تھا، مگر اب وہی اسے مزید دلدل میں دھکیل رہا تھا۔ اس کی نظر زمین کے اس آخری ٹکڑے پر پڑی جو ابھی تک بچا ہوا تھا۔
رات کو باپ اور بیٹے کے درمیان خاموشی سے ایک معاہدہ ہوا۔ بشیر نے ایک گہری سانس لی اور کہا، “میں جانتا ہوں بیٹا، یہ میری نالائقی کا نتیجہ ہے۔ اب تو یہ زمین بیچ کر بھی اگر تمہارا خواب پورا ہو جائے تو مجھے افسوس نہیں ہوگا۔” اسلم نے سر جھکا لیا۔
اگلے دن، باپ اور بیٹے نے مل کر ایک کنال زمین چار لاکھ روپیہ میں بیچ دی۔ یہ فیصلہ تکلیف دہ تھا لیکن آخری چارہ تھا۔ قرض چکا دیا گیا اور باقی رقم سے وہ مکان مکمل ہو گیا جو اسلم نے اپنی بیوی اور بچوں کے لئے دیکھا تھا۔
مکان کی چمک میں اب نئی امید تھی، مگر اس امید کے پیچھے ایک تلخ حقیقت بھی چھپی تھی۔ زمین کا ایک اور ٹکڑا ہاتھ سے نکل گیا۔ بشیر کو کوئی شرمندگی نہ تھی، وہ تو اسے “جُگاڑ” کہتا تھا۔ مگر اسلم جانتا تھا کہ اس نے اپنا خواب ایک بڑے قرض کی قیمت پر خریدا ہے اور اب اسے اپنے بچوں کے لیے صرف زمین نہیں، اپنی پوری زندگی کا رخ بدلنا ہو گا تاکہ ان کے پاس ٹوٹے ہوئے خوابوں کے علاوہ کچھ اور نہ بچے۔ وہ مضبوطی سے مٹی کو مٹھی میں دبا کر مکان کے دروازے پر کھڑا ہو گیا اور ایک نئے، پرعزم مستقبل کا عہد لیا۔
���