نظامِ تعلیم
ہلال بخاری
جیسے ہی نیا تعلیمی سال شروع ہوتا ہے، جموں و کشمیر کا محکمہ تعلیم سرکاری اسکولوں میں داخلوں کو بڑھانے کے لیے اہم اقدامات کر رہا ہے جو طلبہ کی تعداد میں کمی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ اس مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت نے تعلیمی اداروں کو اپنی مقامی حدود میں داخلہ مہمات شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد سرکاری اسکولوں میں داخلوں میں اضافہ کرنا اور ان کو نجی اداروں کے مقابلے میں مزید مؤثر بنانا ہے۔ اگرچہ یہ قدم قابل ستائش ہے اور مستقبل میں مثبت نتائج کی امید ہے، لیکن اس کی کامیابی والدین کی شمولیت، بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور نظام میں اصلاحات جیسے مختلف عوامل پر منحصر ہے۔
داخلہ مہمات کی حقیقی کامیابی کے لیے والدین اور سرپرستوں کو سرکاری اسکولوں کی بہتری میں اپنا کردار سمجھنا ہوگا۔ انہیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ادارے کمیونٹی کی ملکیت ہیں اور اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کروا کر وہ بھاری فیسوں والے نجی تعلیمی اداروں کے اخراجات سے بچ سکتے ہیں۔ تاہم اس راستے میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے حکومت، اساتذہ، والدین اور مقامی نمائندوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
والدین کے خدشات کا ازالہ : سرکاری اسکولوں کو فروغ دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ والدین انہیں نجی اسکولوں کے مقابلے میں کمتر سمجھتے ہیں۔ بہت سے والدین حتیٰ کہ وہ جو معاشی طور پر کمزور ہیں، اپنے بچوں کو مہنگے نجی اسکولوں میں بھیجنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ فیصلہ تعلیمی معیار سے زیادہ سماجی حیثیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر اس مسئلے کو حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھا جائے تو یہ طرزِ عمل خاندانوں پر غیر ضروری مالی بوجھ ڈالتا ہے۔والدین کو معاشرتی دباؤ کی بجائے تعلیمی معیار کو ترجیح دینی چاہیے۔ انہیں اسکولوں کا موازنہ تدریسی معیار، سیکھنے کے نتائج اور طلبہ کی مجموعی ترقی کی بنیاد پر کرنا چاہیے نہ کہ صرف اس بنیاد پر کہ نجی اسکول ہمیشہ بہتر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ والدین کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ انہیں سرکاری اسکولوں میں بہتر سہولیات اور تدریسی معیار کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے، بجائے اس کے کہ وہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں منتقل کریں، انہیں حکام کو جوابدہ بنانا چاہیے اور ایسی اصلاحات کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے جو تمام طلبہ خاص طور پر پسماندہ طبقات کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔
بنیادی ڈھانچے اور سہولیات کی بہتری : والدین کو سرکاری اسکولوں میں بچوں کے داخلے سے روکنے والی ایک اور بڑی رکاوٹ بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں کے بہت سے پرائمری اور مڈل اسکول بنیادی تعلیمی ضروریات سے محروم ہیں۔ خستہ حال عمارتیں، نامناسب صفائی ، ناکافی کلاس رومز اور کھیل کے میدانوں کی عدم موجودگی جیسے مسائل عوام میں سرکاری اسکولوں کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرتے ہیں۔
دوسری طرف، مہنگی فیسیں وصول کرنے والے نجی اسکول عموماً بہتر سہولیات فراہم کرتے ہیں، جیسے کہ صاف ستھری عمارتیں، ٹرانسپورٹ کی سہولت اور جدید تدریسی آلات۔ اس نمایاں فرق کی وجہ سے والدین کے لیے سرکاری اسکولوں پر بھروسہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ تاہم ان خامیوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کی بجائے والدین اور مقامی کمیونٹی کو مل کر ان مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔مقامی نمائندوں کا کردار ان مسائل کے حل میں نہایت اہم ہے۔ اعلیٰ حکام پر الزام لگانے کے بجائے، کمیونٹی لیڈرز کو فعال کردار ادا کرتے ہوئے اسکولوں میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنی چاہیے اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ والدین، اساتذہ اور مقامی حکومتی اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرکے سرکاری اسکولوں کو مزید مؤثر اور پُرکشش بنایا جاسکتا ہے۔
نصابی کتب اور تعلیمی وسائل کی دستیابی :سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار پر اثر انداز ہونے والے بڑے مسائل میں سے ایک درسی کتب اور دیگر تعلیمی وسائل کی کمی ہے۔ اکثر اوقات سرکاری اسکولوں کے طلبہ بنیادی نصابی کتب کی عدم دستیابی کے باعث تعلیمی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ یہ مسئلہ برسوں سے موجود ہے، لیکن اس کے حل کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔داخلہ مہمات کے دوران والدین کی جانب سے اٹھایا جانے والا سب سے عام سوال یہ ہوتا ہے کہ آیا ان کے بچوں کو بروقت کتابیں ملیں گی یا نہیں۔ جب اساتذہ والدین کو بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے قائل کرنے جاتے ہیں تو اکثر انہیں اسی سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے حکام بار بار درسی کتب کی بروقت تقسیم میں ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں کے طلبہ تعلیمی طور پر پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اساتذہ اور والدین کا کردار،سرکاری اسکولوں پر اعتماد کی بحالی :
بہت سے والدین کا خیال ہے کہ نجی اسکولوں میں تعلیم کا معیار سرکاری اسکولوں سے بہتر ہے۔ اگرچہ بعض نجی ادارے واقعی اعلیٰ معیار فراہم کرتے ہیں، لیکن یہ تاثر ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔ سرکاری اسکولوں میں تعینات اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور اکثر نجی اسکولوں کے اساتذہ کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ تاہم سرکاری اسکولوں میں کچھ خامیوں کی وجہ سے ان کی مثبت خصوصیات پر پردہ پڑ جاتا ہے۔اکثر سرکاری اساتذہ خود اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں سرکاری اسکولوں کے خلاف بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اگر زیادہ سے زیادہ سرکاری اساتذہ اپنے بچوں کو انہی اسکولوں میں داخل کرائیں جہاں وہ پڑھاتے ہیں، تو اس سے کمیونٹی میں سرکاری تعلیمی نظام پر اعتماد بحال ہوگا۔
احتساب اور فعال شمولیت کی حوصلہ افزائی:اساتذہ پر لازم ہے کہ وہ تدریسی معیار کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لیں۔ اگرچہ بیشتر اساتذہ محنتی اور مخلص ہیں، لیکن کچھ کیسز میں لاپرواہی اور غفلت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے اسکولوں میں سخت نگرانی کے نظام متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔
آگے کا راستہ : کسی بھی قوم کی ترقی اس کے تعلیمی نظام کی مضبوطی پر منحصر ہے۔ سرکاری اسکول لاکھوں بچوں، خاص طور پر غریب اور پسماندہ طبقے کے لیے تعلیمی مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سماجی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر ان اداروں پر اعتماد کیا جائے۔اگر تمام اسٹیک ہولڈرزحکومت، والدین، اساتذہ اور کمیونٹی لیڈرز،اپنا کردار صحیح طریقے سے نبھائیں تو جاری داخلہ مہم واقعی کامیاب ثابت ہوسکتی ہے۔ ان کوششوں کو محض علامتی کارکردگی تک محدود نہیں رکھنا چاہیےبلکہ حقیقی اور دیرپا تبدیلی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔درست حکمتِ عملی کے ساتھ یہ داخلہ مہم جموں و کشمیر کے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلی لا سکتی ہے۔ اگر ہم اعتماد، احتساب اور فعال شمولیت کی ثقافت کو فروغ دیں تو ہر بچہ خواہ اس کا معاشی پس منظر کچھ بھی ہو، معیاری تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں سرمایہ کاری محض داخلے کی شرح بڑھانے کے لیے نہیںبلکہ ایک مضبوط اور مساوی معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہے۔
[email protected]