داناؤں کایہ قول بالکل بجاہے کہ ’’یہ دنیا(کتابوں کی) پر اُسرار دنیا ہے۔ اس میں وسعت بھی ہے اور حیرت انگیز گہرائیاں بھی۔ یہاںبلا لحاظ مذہب وملت، رنگ ونسل، ملک و قوم ، زمان و مکان پاک روحوںسے ملاقات ہوتی ہے‘‘۔
مارچ ۷ا۲۰ء کی چار تاریخ کو بلیوارڈ روڈ سرینگر کے نزدیک واقع نہرو پارک کے گلشن بکُس پر مشہور ومعروف مصنفہ اور براڈ کاسٹر محترمہ نعیمہ احمدمہجور کی انگریزی تصنیف Lost in Terrorکی رسم رونمائی انجام دی گئی۔ اس دل خوش کن خبر کو پہلے ہی سرینگر سے شائع ہونے والے کچھ اخباروں میں مشتہر کیا گیا تھا۔ چنانچہ ابتداء سے اپنے کتابی ذوق و شوق کے پیش نظر راقم السطور بھی نہرو پارک کی جائے مقررہ پر پہنچ گیا۔گلشن بکُس کی طرف سے ڈل جھیل کے مختصر سے فاصلے کو پار کرنے کے لئے اور وہاں سے واپسی پر مفت شکارے کا بندوبست رکھا گیا تھا۔ نہرو پارک میں واقع یہ کتب خانہ عمارت کی پہلی منزل میں سجایا گیا ہے۔ جو نہی میںنے اپنی نظریں کتب خانہ کے چاروں اور دوڑائیں تو یک بیک میری زبان سے بے ساختہ انگریزی میں یہ جملہ نکل گیا It looks like a heaven یہ عظیم الشان کتب خانہ Gulshan Booksکے نام سے مئی ۶۱۰۲ء میںقائم کیا گیا تھا۔ یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ یہ بے مثال کتب خانہ مشہور عالم جھیل ڈل کے کنارے کے نزدیک ہی قائم کیا گیاتھا۔ چونکہ جھیل ڈل اپنی خوبصورتی اور قدرتی حسن کی وجہ سے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اگر چہ موجودہ وقتوںکے سنگ دل اور بے رحم انسان کے ہاتھوںاس کی خوبصورتی اور جاذبیت بہت حد تک متاثر ہوئی ہے۔ مقامی اور بیرونی شاعروں اور ادیبوں نے جھیل ڈل کے بارے میںاپنی قلمی جولانیوں کو خوب نکھاراہے اور وہ ڈل کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ،اپنے دامن ِمراد کو بھر دیتے ہیں اور اپنے مطالعہ کی تشنگی کو دور کرتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر قاری حضرات مفت میںکتابیں پڑھ کر استفادہ کرتے ہیں۔ شمالی ہندوستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا کتب خانہ ہے۔ یہاںاس سجے سجائے اور دل کو فرحت بخشنے والے کتب خانہ میںکوئی تیس ہزار(۰۰۰۔۳۰)کے قریب عنوانا ت پر کتابیں رکھی گئی ہیں ، انگریزی اور اردو زبانوںمیںیہاںعمدہ ترین کتابیںچاروںطرف نظر آتی ہیں۔ نیچے سے اوپر تک بنائے گئے شلف دیدہ زیب کتابوںسے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور بہت ہی سلیقے سے ہر قسم کی کتابیں دیکھنے والے کی نگاہوںکوخیرہ کرتی ہیں۔ انگریزی زبان و ادب کی کتابوں کی تعداد ،اردو اور کشمیری کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ قرآنمجید کے بہت سارے نسخے یہاںموجود ہیںاوراُن کے ترجمے اور تفسیریںبھی دستیاب رکھی گئی ہیں۔ تاریخی، جغرافیائی ، سائنسی، شعرو شاعری اور ادبی کتابوںکا یہاںخاصا ذخیرہ پڑھنے والوںکے لئے میسر رکھا گیا ہے۔صوفی شاعری اور مذہبی امورات سے متعلق بھی کتابیں موجود ہیں۔ حقیقی علم و ادبی ذوق رکھنے والوںکے لئے بجا طور پر فرمایا گیا ہے ع
کرشمہ دامن ِمے کشد کہ جا اینجاست
زمانہ اگر چہ سرپٹ گھوڑے کی طرح تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور ماضی کو پیچھے چھوڑتا ہے مگرپھر بھی ماضی سے حال اور مستقبل کسی نہ کسی صورت میں جڑا رہتا ہے ۔آج کل اگر چہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے، انٹر نیٹ اور کمپیوٹر جیسے جدید ایجادات کی سہولتیں میسر ہیں مگر اس سب کے باوجود کتاب کی اپنی افادیت سے انسان مستثنیٰ نہیںہوسکتا ہے۔ جس طرح کتاب اپنے پڑھنے والے کے دل و دماغ کو مستفید کرتی ہے اور اس کی ذہنی بالیدگی کی نشو ونما کرتی ہے۔ وہ چیز موجودہ سائنسی ایجادات سے حاصل نہیںہوسکتی ہے۔ کتاب کو اول سے آخر تک سنجیدگی کے ساتھ پڑھنے سے انسان ایک عجیب و غریب کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اس کی اپنی ہی لطافت اور سرمستی ہے کہنے والے نے بجا کہا ہے ع
فراغتے، گوشہ ٔچمنے و کتاب
در اصل گلشن بکُس نے اس طرح ایک خاص جگہ پر کتب خانہ قائم کرکے ایک مثال قائم کی ہے۔ عمارت کے چاروںطرف صاف و شفاف پانی، خوبصورت اور سجے سجائے ہاؤس بوٹوںکا دلکش نظارہ، پانی میں چلتی ہوئی رنگین شکارے، دریائی پرندوںاور آبی بطخوںکی دل کو چھونے والی آوازیں۔صبح کا سماں، جانوروں کی چہچہاہٹ،ہر سو مسجدوں کے میناروں سے اذانوں کی گونج۔ مفت ریڈنگ روم اور کافی والی دکان کی مشترکہ بیٹھک میں جب صاحب مطالعہ صبح اور شام یا بیچ والے اوقات میں جھیل ڈل کے پیچھے بہ طرف مشرق زبر ون پہاڑیوںکی طرف نگاہ اٹھاتا ہوگا تو کچھ عجیب سماں دکھائی دیتا ہوگا۔ علامہ اقبال نے یہاں آکر جھیل ڈل کے کنارے تشریف رکھ کر درست فرمایا تھا ؎
کوہ، دریا و غروب آفتاب
مَن خدا را دیدم انجا بے حجاب
تقریب سعید کے روز یعنی ۴؍ مارچ ۲۰۱۷ء کو اس علم و دانش کی فرحت بخش جگہ پر محترمہ نعیمہ مہجورکے ساتھ ایک نشست منعقد ہوئی۔ کتاب کی رونمائی علم میںلائی گئی۔ بہت سے علم دوست حضرات اور دانشور موجود تھے۔ محترمہ نے اپنے خیالات کا بر ملا اظہار کیا اور کتاب مذکور سے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے جب کہ پڑھنے کے دوران اُن کی آنکھیں پُر نم بھی ہوئیں۔سامعین میں سے بہت سے حضرات نے اپنے سوالات پیش کئے اور موصوفہ نے اپنے جوابات سے اُن کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ نشست کے افتتاح پر مہمانوں کی چائے سے بھی مہمان نوازی کی گئی۔ اس ادارے کے موجودہ سربراہ جناب شیخ اعجاز احمد ہیں۔ یہ اُن کے خاندان کی پانچویں پشت سے تعلق رکھتے ہیں۔ میزبان خود بھی علم دوست اور ادب نواز ہیں۔ انگریزی، اردو اور کشمیری میں لاتعداد کتابیں چھاپ کر گلشن علم وادب کی آبیاری کرتے ہیں۔ کشمیر بھر کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اپنی اشاعتی کارکردگی کی بناء پر یہ اچھی طرح پہچانے جاتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ شیخ اعجاز اور ادارہ سے دیگر افراد کو زیادہ سے زیادہ علمی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا کرے۔ایک علم دوست کے درج ذیل خیالات بلا شک کتابوں کے شیدائیوں کے لئے نقل کئے جاتے ہیں اور خاص کر نئی پود کے لئے جو مطالعہ کتب سے دور ہوتی نظر آتی ہے۔ ان کے لئے بھی اس دوری کو پاٹنے کے لئے بہت مفید اور سبق آموز ہیں۔ کتابیںبلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں۔ کتابیں بحر حیات کی سیپیاںہیںجن میں پر اسرار موتی بند ہیں۔ کتابیں معلومات کے ثمردار درختوں کے باغ ہیں۔ گذرے ہوئے بزرگوں کے دھڑکتے دل ہیں۔ حُسن و جمال کے آئینے ہیںاور وقت کی گذری ہوئی بہاروں کے عکس ہیں۔ کتابیں لافانی بلبلیںہیں جو زندگی کے پھولوں پر سرمدی سرمدی نغمے گاتی ہیں۔انہی بلند و بالا خیالات کو نظر میںرکھتے ہوئے شیخ اعجاز احمد کا قائم کردہ یہ علم و ادب کا یہ گلستانGulshan Books Kashmir اپنے چاہنے والوںکے لئے دلکشی اور رعنائی کا باعث ہے۔
رابطہ 9419674210