زرعی مقاصد اورپانی سے محروم علاقوںتک سپلائی فراہم کرنے کیلئے چند دہائیوں قبل ریاست بھر میں نہروں کی تعمیر عمل میں لائی گئی جس سے سینکڑوں کنال اراضی کو سیراب کرکے دھان کی فصل کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی سبزیاں اور دیگر فصلیں اگانے اورگھروں کو پانی کی فراہمی میں کافی مدد ملی تھیلیکن پچھلے کچھ عرصہ سے نہ ہی نئی نہروں کی تعمیر ہوئی ہے اور نہ ہی پہلے سے موجود نہروں کی دیکھ ریکھ ہورہی ہے ،جس کے نتیجہ میں ایک ایک کرکے یہ قیمتی اثاثہ تباہ ہوتاجارہاہے ۔یہ نہریں وادی کشمیر کے میدانی علاقوں میں بھی تعمیر ہوئیں اور اسی طرح سے جموں خطے کے پہاڑی علاقوں میں بھی ،جہاں ان کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کیونکہ ان پہاڑی علاقوں میں زمین کو سیراب کرنے کا اور کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ عدم توجہی کی وجہ سے ایک ایک کرکے یہ نہریں تباہ ہورہی ہیں او رمتعلقہ حکام خواب غفلت میں سورہے ہیں ۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پانی کے ذخائر میں رونما ہوئی کمی بھی ان نہروں کی عدم توجہی کاسبب بنی ہے اور چونکہ کئی نہریں خشک ہوچکی ہیں اس لئے ان کی طرف توجہ نہیں دی جارہی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متعلقہ حکام ان نہروں پر بھی توجہ مرکوز نہیں کر رہے، جہاں آج بھی پانی موجود رہتاہے ۔اس صورتحال کی وجہ سے جہاںان نہروں کی تباہی کسانوں کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور کئی علاقوں میں کل تک دھان کی فصل اگانے والے آج مکئی کاشت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، وہیں گھروں میں استعمال ہونے والے پانی میں بھی کمی واقع ہورہی ہے اور نہروں پرانحصار رکھنے والے لوگ آج پانی کے حصول کیلئے دربدر بھٹکنے پر مجبور ہیں ۔ان نہروںمیںسے کچھ تو ایسی ہیں جن کی تعمیر 1947سے بھی قبل ہوئی جن سے بہت بڑی آبادی مستفید ہوتی رہی ہے لیکن مسلسل انتظامی عدم توجہی کی وجہ سے ان کا نام و نشان مٹتاجارہاہے ۔جموں شہر کو گرمیوں کے موسم میں سیراب کرنے والی ایسی ہی مشہور و معروف نہر دریا ئے چناب سے نکالی گئی تھی جس کو اگرچہ آج بھی استعمال میں لایاجاتاہے لیکن اس کی حالت بھی گندگی اور مٹی جمع ہونے سے خراب ہوچکی ہے اور آج وہ صاف و شفاف پانی نہیں رہا جو اس کی پہچان ہواکرتاتھا۔دنیا بھر کی طرح ریاست کے بگڑتے ماحولیاتی توازن پر حکام کی طرف سے نصیحت آمیز بیانات تو جاری کئے جاتے ہیں اور ساتھ ہی آبی ذخائر کے تحفظ کے اقدامات کرنے کے اعلانات بھی ہوتے ہیں مگر زمینی سطح کا حال ان نہروںسے ظاہر ہوجاتاہے جو شدیدخستہ حالی کاشکار ہیں ۔ریاست کی دیہی آبادی کا انحصار بہت حد تک زراعت کے شعبے پر ہے اور اگر اس شعبے سے جڑے لوگوں کو کئی کئی ماہ تک رہنے والی مسلسل خشک سالی کے وقت نہروں کے ذریعہ کھیتوں کو سیراب کرنے کیلئے پانی نہیں ملے گاتو نہ صرف وہ خود متاثر ہوںگے بلکہ ریاست کے مجموعی ترقی پر بھی اس کا اثر پڑے گا ۔زراعت کے شعبے کو تقویت دینے کیلئے یہ امر لازمی ہے کہ پہلے سے موجود نہروں کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے اور ان کی صفائی اورمرمت کرکے زیادہ نہیں تو بارشوں کے موسم میں پانی کھیتوںتک پہنچایاجائے اور ساتھ ہی ضرورت کے مطابق نئی نہروں کی تعمیر عمل میں بھی لائی جائے تاکہ زرعی مقاصد بھی پورے ہوسکیں اور پانی سے محروم علاقوں تک انہی نہروں کے ذریعہ پانی سپلائی کیا جاسکے ۔