وسیم فاروق وانی
لالچوک ہمیشہ ہلچل سے بھرا رہتا ہے۔ دن بھر کے شور شرابے، دکانداروں کی صدائیں، چائے خانوں سے اُٹھتی بھاپ اور چھاپڑی فروشوں اور بس کنڈکٹروں کے بے ہنگم نعرے۔ مگر اس شور میں بھی کچھ لوگ اپنی خاموشی سے پہچانے جاتے ہیں۔ میرا دوست راشد بھی انہی میں سے ایک تھا۔
ہم اکثر شام کے وقت لالہ شیخ چائے خانے کے اندر قبرنما کوٹھر ی ، جہاں موبائیل نیٹورک نہ ملنے کے سبب ہم دنیا و ما فیہا کے جنجال سے چند لمحے آزادی پاتے،میں چائے کہ چسکیاں لیتے ۔ میں باتیں کرتا رہتا، وہ سنتا رہتا۔ کبھی کبھار مسکرا دیتا، لیکن اُس کی مسکراہٹ بھی کسی دبے راز کی طرح ہوتی۔ مجھے بار بار تجسس ہوتا کہ آخر وہ اپنے اندر کیا چھپائے بیٹھا ہے۔
ایک دن میں نے بے ساختہ پوچھ لیا:
ـ’’راشد، تم اتنے چپ کیوں رہتے ہو؟ آخرتم نے اپنے اندر کیاسمیٹے رکھا ہے؟‘‘
وہ مسکرایا، مگر اُس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ بولا:
’’کچھ دروازے بند رہنے کے لئے ہوتے ہیں۔ اگر تمہیں مجھ سے رشتہ قائم رکھنا ہے تو مجھے وہی دیکھو جو میں دکھاتا ہوں۔ باقی نہاں خانوں میں کچھ جان کر ہی میں نے اندھیرا کر رکھا ہے۔‘‘
یہ جواب میرے لئے حیران کن تھا۔ میں نے سوچا تھا وہ کھل جائے گا، اس کے دل کا بوجھ ہلکا کرے گا۔ لیکن اُس نے اُلٹا مجھے ایک سبق دیا: سب کچھ جان لینا ضروری نہیں۔
لالچوک کے ہجوم پرمیں نے غور کیا۔ ہر کوئی ایک نہ ایک نقاب پہنے ہے۔دکاندار نرمی کے پردے میں سختی چھپاتے ہیں، سیاست دان امید کے پردے میں مفاد۔ نوجوان جوش کے پردے میں خوف۔ گویا ہر چہرہ ایک کہانی چھپائے ہے۔
تب مجھے احساس ہوا کہ شاید راشد بھی انہی میں سے ہے۔ اُس نے یہ چُنا ہے کہ وہ مجھے صرف اپنا بہتر رخ دکھائے کیونکہ وہ مجھ سے رشتہ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ سوال یہ تھا: کیا مجھے اُس کا پردہ ہٹانے کا حق ہے بھی؟
چند دن بعد ، بنڈ کی مسجد بلال کے قریب ایک بوڑھے شخص کی بات کانوں میں پڑی۔ وہ اپنے ساتھی کو کہہ رہا تھا:
’’بیٹا! انسان کے دل میں کئی راز دفن ہوتے ہیں۔ اگر تم ہر راز کھودنے لگو تو رشتے بھی دفن ہو جائیں گے۔‘‘
میں چونک گیا۔ یہ بات بالکل راشد کی خاموشی سے جُڑ گئی۔ جیسے اس تاریخی شہر نے اپنے تجربات کے وسیع خزانے میں سے ایک نگینہ مجھے عطا کر دیا ہو۔
اب جب میں راشد کے ساتھ بیٹھتا ہوں تو اُس کی خاموشی مجھے بوجھ نہیں لگتی۔ میں جان گیا ہوں کہ دوستی یا تعلق کا حسن یہ نہیں کہ ہم دوسروں کے سارے راز کھولیں، بلکہ یہ کہ ہم اُنہیں اُن کو ان کے روشن رخ پر قبول کریں۔
لالچوک کا شور آج بھی جاری ہے۔ چھاپڑی فروشوں کے بے ہنگم نعرے، دکانیں، چائے کے کپ، اور سیاست کے ہنگامے۔ مگر میرے لئے اصل انقلاب وہ ہے جو اندر آیا:
’’ہر انسان کے اندر کچھ دروازے ایسے ہیں جو ہمیشہ بند رہنے چاہئے۔ سکون اسی میں ہے کہ ہم اُنہیں بند ہی رہنے دیں اور وہی تک ایک انسان کے اندر جھانکیں جہاں تک وہ ہمیں اجازت دے‘‘۔
���
سرینگر کشمیر،موبائل نمبر؛7006041789
[email protected]