رسالہ ’’نقوش‘‘لاہور اپنی ادبی روایات کے لئے برصغیر کے معروف ترین رسائل میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے خصوصی شمارے تو بہت ہی خاص ہوتے ہیں لیکن اس کے عام شمارے بھی کسی خاص شمارے سے کم نہیں ہوتے۔ پطرس بخاری مرحوم نے ایک دفعہ کہا تھا ۔
’’نقوش کا ہر نمبر خاص ہوتا ہے اور اس کا عام نمبر خاص خاص موقعوں پر شائع ہوتا ہے‘‘
بالکل یہی بات اگر’’ نگینہ‘‘ کے متعلق بھی کہی جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ کشمیر میں اُردو ادب کی مجلاتی صحافت میں رسالہ ’’نگینہ‘‘ کو اب ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہورہی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں اس کا جو بھی شمارہ نکلا اُس نے اپنی اہمیت منوالی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ’’نگینہ‘‘ کے خصوصی شمارے موضوعات کے حرف آخر ہیں تاہم ان کی دستاویزی حیثیت اب مسلم بنتی جارہی ہے۔ جناب وحشی سعید مبارک بادی کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ’’نگینہ‘‘ کا دوبارہ اجراء کرکے اردو ادب کی خدمت کو اپنا شعار بنالیا۔
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ’’نگینہ‘‘ کے اس خاص شمارے ’’تخلیق نمبر‘‘ کاایک مختصر سا جائیزہ پیش کروں۔ اس کی شروعات حسب قاعدہ اداریے سے کی گئی ہے۔ ’’بات سے بات‘‘ کے عنوان سے اس اداریے میں مزاحمتی ادب کے حوالے سے چند معروضات پیش کی گئی ہیں۔ مزاحمتی ادب کے حوالے سے اس کی تاریخ، وجوہات اور عوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خاص کر افسانہ اور شاعری سے مزاحمتی ادب کا جائیزہ لیا گیا ہے۔ ’’نگینہ‘‘ کے اس خاص شمارے میں مزاحمتی ادب سے متعلق کئی تحریریں شامل ہیں۔ مضامین کے حوالے سے بات کریں تو اس شمارے میں پہلا مختصر مضمون مرحومہ بانو قدسیہ کا ہے۔ یہ ایک تاثراتی مضمون ہے جو مشہور شاعر وادیب امجد اسلام امجد کے متعلق سپرد قلم کیا گیا ہے۔ مرحومہ کا خیال ہے کہ امجد جو بظاہر محفلوں کو اپنی خوش گفتاری سے زعفران زار بنادیتے ہیں، بباطن نہایت غم زدہ انسان ہیں۔ اپنے حزن وملال کو شاعری کے پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔
علیم صبا نویدی نے اپنے مضمون میں شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی رباعیات میں موجود طنزیہ اور باغی عناصر کا مختصر جائیزہ لیا ہے۔ علیم صاحب کا خیال ہے کہ جوش عمر خیام کی رباعیات سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔
اپنے مضمون ’’منٹو کی افسانوی معنویت اور قدروقیمت‘‘ میں ڈاکٹر اجے مالویہ نے منٹو کی انقلاب پروری، اُن کی فرسودہ عقائد سے بغاوت اور زندگی کی تلخ اور بے رحم سچائی کو اپنے مضمون میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے صاحب مضمون نے منٹو کے افسانوں، نیا قانون، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، بابو گوپی ناتھ کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔
پروفیسر علی احمد فاطمی کے ایک مضمون دوسرفروش شاعر کے میںجواب ڈاکٹر محمد محفوظ الحسن کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے فاطمی صاحب نے اس شعر ؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازئوے قاتل میں ہے
کو رام پرساد بسمل سے منسوب کیا ہے۔ اس کے جواب میں صاحب مضمون نے سند فراہم کرکے ثابت کیا ہے کہ یہ شعر بسمل عظیم آبادی کا ہے۔ اپنے ثبوت میں انہوں نے وہ پوری غزل پیش کی ہے جس میں بسمل عظیم آبادی کا یہ شعر موجود ہے۔
اردو شاعری میں نئے تجربے کے عنوان سے سعید رحمانی صاحب کا مضمون بھی اس شمارے کی زینت ہے جس میں انہوں نے مختلف اصناف سخن سے متعلق کئے گئے تجربات کا مختصر جائیزہ لیا ہے۔ نظم میں آزاد نظم ، نظم معریٰ، یک سطری، دوسطری اور سہ سطری نظمیں نثری نظم وغیرہ اور غزلوں کے حوالے سے آزاد غزل غزل نما، نثری غزل، ماہیا غزل وغیرہ۔ صاحب مضمون کا خیال ہے کہ ان تجربوں سے شعروادب کی راہیں کشادہ ہوئی ہیں۔
’’شیرازہ سے میری وابستگی ‘‘ مرحوم محمد احمد اندرابی کا مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں انہوں نے مجلہ شیرازہ سے اپنی وابستگی کی روئیداد لکھی ہے۔ روئیداد کو پڑھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم کن خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اکادمی کے مجلہ ’’شیرازہ‘‘ کو بلندیوں کے مقام تک پہنچانے میں اُن کا کلیدی رول تھا۔
ڈاکٹر مدثر ماجدی کا عنوان ’’اقبال کے کلام میں پرندوں کی علامتی معنویت‘‘ بھی اس نمبر کی زینت ہے۔ موصوفہ نے اقبال کے کلام سے مثالیں فراہم کرکے یہ واضح کیا ہے کہ اقبال نے افکار وآراء کی توضیح کے لئے پرندوں سے بڑا کام لیا ہے۔ یہ پرندے علامت بن کر اُبھرے ہیں۔ اقبال نے انہیں بالکل نئے معنی پہناکر مخصوص فکر کا آلہ ٔ کار بنایا ہے۔ مضمون نگار نے شاہین، کرگس، زاغ، طائوس، بلبل اور کبوتر کا خاص ذکر کیا ہے۔
’’ملک زادہ منظور احمد کا اسلوب نگارش‘‘ ایک اور مضمون ہے جسے ڈاکٹر آفاق فاخری صاحب نے تحریر کیا ہے۔ موصوف نے ملک زادہ کی طرز تحریر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک زادہ صاحب کی نثر میں شائستگی، شگفتگی اور بلاغت بدرجہ اُتم موجود ہے۔ مقالہ نگار نے ملک زادہ کی تصانیف ’’رقص شرر‘‘ اور ’’شہر سخن‘‘ سے مثالیں فراہم کرکے ان کی طرز تحریر کو واضح کیا ہے۔
قند مکرر کے طور پر قمر شمیم مظہری کا مضمون ’’ڈاکٹر اقبال مصلح قوم کی حیثیت سے‘‘ شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار نے بڑی محنت سے اقبال کے ان اشعار کا انتخاب کیا ہے جو اقبال نے قوم کی اصلاح کے حوالے سے منظم کئے ہیں۔
اس خاص نمبر میں عمر فرحت نے ’’مغرب میں نثری نظم‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے ۔ اس مضمون میں نثری نظم کی مختصر تاریخ لکھی گئی ہے۔ مقالہ نگار کا خیال ہے کہ نثری نظم کا رواج ایک خاص ادبی تحریک کے زیر اثر ہوا جسے علامت نگاری، اشاریت یا رمزیت Symbolismکہا جاتا ہے۔
’’استاذی قبلہ عشرت کرتپوری مرحوم‘‘ کے عنوان سے جناب ڈاکٹر اشرف آثاری کا مضمون بھی اس نمبر میں شامل ہے۔ یہ ایک تاثراتی مضمون ہے جس میں انہوں نے عشرت کرتپوری کی مختصر حیات، اُن کی شاعری کی ابتداء اور مشاعروں میں شرکت ، مقالہ نگار کے عشرت کرتپوری سے تعلقات اور عشرت کرتپوری بحیثیت انسان کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔
ڈاکٹر کرشن بھائوک نے اپنے مقالہ میں معروف شاعر قتیل شفائی کے فن اور شخصیت پر اظہار خیال فرمایا ہے۔ مقالہ نگار نے قتیل شفائی کی شاعری کے نمونے اور عصر حاضر میں ان کی معنویت کو بھی مقالہ میں سمودیا ہے
شمس الرحمن فاروقی ’’معرفت شعر نو‘‘ کے آئینے میں جناب گلزار احمدگنائی کا مقالہ ہے۔ اس میں انہوں نے فاروقی صاحب کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’معرفت شعر نو‘‘ پر اظہار خیال فرمایا ہے۔ مقالہ نگار فاروقی صاحب کی تنقیدی بصیرت کے معترف ہیں۔ یہ تمام مضامین جو جدید شاعری کے حوالے سے تحریر کئے گئے ہیں ، موضوع کے اعتبار سے ان میں حیرت انگیز یکسانیت ہے۔ مضامین مبالغہ آمیزی اور انتہا پسندی سے پاک تنقیدی نمونے ہیں۔ البتہ مقالہ نگار کے خیال کے مطابق فارقی صاحب فراق گورکھپوری سے زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جدید شاعری کی پہچان کے لئے بہرحال فاروقی صاحب کے یہ تنقیدی مضامین سنگ میل کا کام دیں گے۔
محمد اقبال کے قلم سے نکلا ہوا مضمون ’’نور محمد ایک دانشور، ایک علم دوست، ادب نواز ناشر‘‘ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔ اس میں مقالہ نگار نے تاجر کتب نور محمد کی خدمات کا جائیزہ لیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ مرحوم محض ایک کتب فروش ہی نہ تھے بلکہ اُنہوں نے علمی، دینی کتب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا اور اس لحاظ سے ایک علامت کے طور پر اُبھرے ، اسی لئے انہیں کشمیر کے کنول کشور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کاچو اسفند یار خان کا انجمن نصرت العاشقان ایک مزاحیہ انشائیہ ہے۔ اس میں عاشقوں کو یہ نوید سنائی گئی ہے کہ دوسرے انجمنوں کی طرح عاشقوں کی بہبود کے لئے بھی انجمن بنائی گئی ہے۔ انشائیہ نگار نے اس انجمن کو نمایاں رکھنے کے لئے ایک کمیٹی کے ذریعہ چند مخصوص نشانیاں وضع کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
دیپک بدکی کا دورئہ کشمیر اصل میں ایک انٹرویو ہے جسے ڈاکٹر اشرف آثاری نے ترتیب دیا ہے۔ بدکیؔ صاحب حال ہی میں وارد کشمیر ہوئے تھے۔ چنانچہ جناب نور شاہ ، اشرف آثاری، وجیہہ احمد اندرابی، مشتاق کینی، رشید راہگیرلداخی، شیخ بشیر احمد نے بدکیؔ صاحب سے جو سوالات پوچھے وہ ان کے کشمیر سے باہر کے قیام، افسانہ کی موجودہ صورت حال، وادی میں افسانہ اور اس کے مستقبل کے حوالے سے تھے۔ یہ یاد رہے کہ بدکی صاحب کشمیری الاصل ہیں لیکن ایک طویل عرصہ سے یوپی کے غازی آباد میں قیام پذیر ہیں۔
مزاحمتی ادب کے حوالے سے اس شمارے میں کئی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ جناب وجیہہ احمد اندرابی کا مضمون صحافت اور مزاحمتی ادب جس میں انہوں نے اردو ادب میںمزاحمتی ادب کی تاریخ اور اس حوالے سے کشمیر کے اخبارات کا رول بیان کیا ہے۔ اختر محی الدین مرحوم کے دو افسانچے جن کا اردو ترجمہ معروف افسانہ نگار نورشاہ نے کیا ہے۔ محی الدین ریشی کا افسانہ How is That جو اصل میں کشمیری میںلکھا گیا تھا ، اس کا ترجمہ رشید راہگیر لداخی نے کیا ہے ، دلدار اشرف کا مختصر علامتی افسانہ ’’پیاس‘‘ ، شکیل الرحمن کا ’’گھپ اندھیرا‘‘ ، وحشی سعید کے افسانہ ’’بھنگی‘‘ کا ری مکس (ایم مبین) یہ سبھی مزاحمتی ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔نورشاہ کا افسانہ ’’اللہ خیر کرے‘‘ بھی مزاحمتی ادب سے تعلق رکھتا ہے اور اُنہوں نے ایک اہم موضوع کی جانب ہماری توجہ دلائی ہے۔
وحشی سعید کے افسانہ ’’آب حیات‘‘ کا تجزیہ ایم مبین نے کیا ہے۔ قند مکرر کے طور پر وحشی سعید کی تحریر مظفر ایرج کے ساتھ میری شناسائی بھی اس شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ سعید صاحب مظفر ایرج کی غزلیہ شاعری سے متاثر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایرج صاحب نے تقلید کا رنگ چھوڑ کر اپنا ایک انفرادی رنگ اختیار کیا ہے۔سعید صاحب کے خیال کے مطابق مظفر ایرج نے جو نظمیں لکھی ہیں وہ اکثر اقبال کے تتبع میںلکھی گئی ہیں۔
’’نگینہ‘‘ کا یہ شمارہ معتبر افسانہ نگاروں ، ستیہ پال آنند، نور شاہ، رشید امجد، زین سالک، اقبال انصاری، جیتندر بلو، پرویز اشرفی، وحشی سعید ، خالد حسین وغیرہ کی تحریروں سے مزین ہے۔
رئوف خوشتر نے رمضانچے کے عنوان سے چند افسانے لکھے ہیں ۔ اس میں ماہ رمضان میں روزوں کے ساتھ مذاق کرنے والوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ وحشی سعید کے خوبصورت علامتی افسانہ ’’اصلی مجرم کو پیش کرو‘‘ کا تجزیہ جاوید انور نے پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ جن افسانہ نگاروں نے اس نمبر میں جگہ بنالی ہے اُن کے نام یہ ہیں : شاہد جمیل، عارف خورشید، شفیع احمد، تنویر اختر، شرافت حسین، ظہور ترنبو، محمد قیوم، غلام نبی شاہد، نیلوفرناز نحوی، پرویز مانوس، ریاض توحیدی، ناصر ضمیر، راجہ یوسف، طارق شبنم، صوفی بشر بشیر اور شوکت احمدراتھر ہیں۔ یہ شمارہ شعری ادب سے بھی مالا مال ہے۔ اس میں جن شعراء کی تخلیقات شامل ہوئی ہیں اُن کے اسمائے گرامی ہیں ۔ ۔ کرشن کمار طور، سلطان الحق شہیدی، پرتپال سنگھ بے تاب، سردار پنچھی، اشرفی، تابش، ضرر وصفی، شاہین زیدی، وصی مکرانی، شفیق مراد، مسعود تنہا، مسلم نواز، نثا ر جے راج پوری، نخشب ناگپوری، ایوب صابر، فرزانہ فرحت، بلراج بخشی، علی شیدا، سلیم ساغر، عارض ارشادہ وغیرہ
مزاحیہ ادب میںملا آصف کاشمیری کی غزلWhat is Thisشائع ہوئی ہے جو ہمارے بے ایمان حکمرانوں ، امیروں، سیاست دانوں، رشوت خوروں، تاجروں اور ظالموں پر ایک ایسا تیکھا طنز ہے جو کسی نشتر سے کم نہیں۔
نظموں کے حوالے سے بات کریں تو اس نمبر میں کئی نظمیں شامل اشاعت ہوئی ہیں مثلاً مزاحمتی ادب کے حوالے سے جناب غلام نبی خیال کی دونظمیں ، مظفر ایرج کی نظم مسیحا کی واپسی، عالم بنارسی کی نظم خوش فہمی، احمد کلیم فیض پوری کی دو آزاد نظمیں، صبا شاہ کی نظم شبنم عشائی کی دو نظمیں اور آمنہ غزل کی دو نظمیں شائع ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ جن شعراء کی دوسرے موضوعات سے متعلق نظمیں شامل اشاعت ہیں اُن کے نام یہ ہیں ۔ ۔ بشیر دادا، شیخ رحمن،عارض ارشاد کی نظم ’’امن کے محافظ‘‘ مزاحمتی ادب سے متعلق ہے۔ جناب شارق عدیل کی چند رباعیات بھی اس شمارے میں شامل ہیں۔
’’زاویہ نگاہ ‘‘ کے عنوان سے محترم اشرف آثاری کے تبصرے بھی شامل اشاعت ہیں۔ موصوف نے جن کتابوں پر بے لاگ تبصرے کئے ہیں اُن میں غلام نبی الامی شائق کی تالیف علوم قرآن جو چھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ سیفی سرونجی کی تصنیف ’’تنقید شناسی‘‘ یہ کتاب تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔
شمع افروز زیدی کی تصنیف ’’تنقیدی دریچے‘‘ بھی مضامین پر مشتمل ہے۔ شوکت پردیسی کی دو کتابیں ۔ ۔ (الف) مضامین شوکت پردیسی(ب) شعری مجموعہ ۔ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ (لاہور) کے ایک شمارہ دسمبر 2016کا تجزیہ بھی جناب اشرف آثاری کے قلم کا نتیجہ ہے۔جناب ڈاکٹر ظہیر انصاری صاحب نے ’’نگینہ ‘‘ کے عالمی ادب نمبر جسے وہ غیر معمولی مرقع ٔ ادب قرار دیتے ہیں، کا بھرپور اور جامع جائزہ لیا ہے ۔ وہ اس شمارے کو تاریخی دستاویز سمجھتے ہیں۔ اسی شمارہ (عالمی ادب نمبر) کا سیر حاصل تبصرہ جناب وجیہہ احمد اندرابی کے قلم کا نتیجہ ہے جو اس شمارے کی زینت ہے۔شمارے کے آخر میں ’’نگینہ ‘‘ کے قارئین کے خطوط درج ہیں۔ قد آور قلم کاروں کی تخلیقات سے مزین زیر تبصرہ شمارہ ایک ادبی دستاویز سے کم نہیں ہے۔ اس کے مشمولات ہندوپاک کے کسی معیاری اردو رسالے کے مشمولات سے بہتر ہی نہیں بلکہ بہت بہتر ہیں۔