گذشتہ جمعرات کی شبانہ بارش سے وادیٔ کشمیر کے اندر نکاسیٔ آب کے نظام کی بدترین صورتحال اُس وقت سامنے آگئی، جب جابجا بستیوں میں چھوٹی بڑی سڑکیں ایسے زیر آب آگئیں، جیسے سیلاب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ وقفے وقفے سے بارشوں کا سلسلہ گذشتہ ایک مہینے سے جاری ہے، جس کی وجہ سے زیر زمین سطح آب میں یقینی طور پر اضافہ ہوا ہے تاہم جس پیمانے پر دیکھتے ہی دیکھتے شہر ، قصبہ جات اور دیہات میں سڑکیں زیر آب آگئیں اُس سے نہ صرف لوگوں کو عبور و مرور میں مشکلات پیدا ہوگئیں بلکہ کئی علاقوں میں پانی گھروں کے آنگنوں میں داخل ہوا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہےبلکہ جب بھی بارشیں ہوتی ہیں بستیوں اور بازاروں میں چھوٹی بڑی سڑکیں زیر آب آنے کی وجہ سے لوگوں کا عبورومرور اور گاڑیوں کی آمد و رفت متاثر ہوتی ہے، خاص کر بزرگوں، خواتین اور بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا بار بار کیوں ہوتاہے؟ جواب ایک ہی ہے کہ ہمارے نکاسی نظام میں بنیادی نقائص ہیں جس کی وجہ سے اُن مقامات کی طرف پانی کا بہائو رک جاتا ہے، جو ایسے پانی کے لئے آخری مقام ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ شہر اور قصبہ جات میں ڈرینوں کے اندر روکاوٹوں کی وجہ سے یہ پانی آگے نہیں بڑھتا ہے اور اسکو میکانیکی طریقہ کار سے آگے لے جانے کے مؤثر اور مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ چھوٹی بڑی نالیوں کی تواتر کے ساتھ صفائی کی جانی چاہئے، تاکہ ان میں جمع کوڑا کرکٹ پانی کے بہائو کو روکنے کا سبب نہ بنے، لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا ہے۔ سرینگر میونسپل کارپوریشن ہو یا قصبہ جات کی میونسپل کمیٹیاں، ڈرینوں اور نالیوں کی صفائی شازونادر ہی کی جاتی ہے، حالانکہ یہ ایک روزمرہ کا معمول ہونا چاہئے تھا۔ اب جبکہ ان اداروں میں منتخب عوامی نمائندے بھی موجودہیں، انکی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں نکاسی آب کی صورتحال کا جائزہ لیکر ذمہ دار اداروں پر حقائق اُجاگر کرکے مناسب اور معقول انتظامات کروانے کے لئے کام کریں۔ انتظامیہ کے لئے ڈرینج نظام کے کم و بیش سبھی پہلوئوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر مقامات پر کلیدی ڈرینوں، جہاں بستیوں کی نالیوں سے نکلنے والا پانی بہہ کر چلاجاتا ہے، کی سطح بستیوں میں موجود نالیوں کی سطح سے بلند ہےجس کی وجہ سے یہ پانی نکاسی کی بڑی ڈرینوں میں بہنے سے رہ جاتا ہے اور واپس آگر گلی کوچوں اور سڑکوں میںجمع ہوجاتا ہے۔بدقسمتی کا مقام ہے کہ اس حوالے سے بار بار حکام کی توجہ اس جانب مبذول کی جاتی رہی ہے، لیکن حکومتیں اس جانب توجہ دینے میں متلق ناکام رہی ہیں، جسکا خمیازہ عام لوگوں کو اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پانی کے نکاسی کے لئے قائم کئے گئے پمپ سٹیشن بجلی سپلائی میں روکاوٹوں کی وجہ سے بند پڑے رہتے ہیں، چنانچہ گندے پانی کو اُس کے حتمی مقام تک پہنچانے کا کام نہیں ہوپاتا۔ اس ساری صورتحال میں کسی حد تک ہمارا سماج بھی ذمہ دار ہے، کیونکہ شائد ہی کوئی ایسی بستی ہوگی، جہاں پالیتھین اور اس قبیل کی اشیاء کے ڈھیروں کے ڈھیر سڑکوں پر نہ پڑے ہوتے ہوں، جو تیز بارشوں کی وجہ سے بہہ کر نالیوں اور ڈرینوں میں چلے جاتے ہیں اور پانی کے بہائو میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سماجی سطح پر ایک ہمہ گیر بیداری مہم چلائی جائے اور لوگوں کو پالی تھین اور اس قبیل کی ایسی ٹھوس چیزوں، جن کا گھلنا ناممکن ہوتا ہے، کے انسانی سماج اور ماحولیات کے تئیں نقصان کو اجاگر کیا جائے۔ سب سے اہم بات پالی تھین کی اشیاء کے استعمال پر پابندی عائد کی دی جائیں تاکہ انسان اور ماحولیات کو اس کے نقصانات سے محفوظ رکھا جاسکے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا ہے ، نکاسی آب کے نظام میں بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جہاں ہماری حکومتیں جدید ترقیاتی سکیموں کے ڈول بجا رہی ہیں، وہاں نکاسی آب کے نظام کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہئے۔