محمد ہاشم القاسمی
اسلام میں نکاح کا کوئی وقت، دن، یا تاریخ مقرر نہیں ہے، البتہ شوال کے مہینے میں اورجمعہ کے دن نکاح کرنا مستحب ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ماہ شوال میں اورجمعہ کے دن کرنا منقول ہے۔ نکاح کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کا مشترکہ سنت ہے، اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا ’’النکاح من سنتی ‘‘نکاح میری سنت ہے (الحدیث) مگر فقہا کرام نے انسانوں کے حالات کے اعتبار سے نکاح کرنے اور نہ کرنے کے احکام نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں، چونکہ نکاح کرنا کبھی فرض، کبھی واجب، کبھی سنت موکدہ، کبھی مکروہ تحریمی اور کبھی حرام ہوجاتا ہے۔اس کو اس طرح سمجھئے۔
۱۔ نکاح کرنا اس وقت فرض ہو جاتا ہے جب شہوت بہت زیادہ ہو، حتی کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کرلینے کایقین ہو، مہر اورنان ونفقہ ادا کر نے کی استطاعت رکھتا ہو، نیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو، تو ایسی صورت میں نکاح کر لینا فرض ہے،۲۔نکاح کرنا واجب اس وقت ہو جاتا ہے جب نکاح کرنے کا تقاضہ ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو، مہر اورنان ونفقہ ادا کر سکتا ہو نیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو، تو ایسی صورت میں نکاح کرنا واجب ہو جاتا ہے،۳۔ عام حالات میں یعنی مالی اور جسمانی حالت اچھی ہو، بیوی کے حقوق کو ادا کر سکتا ہو، بیوی پر ظلم وستم کرنے کاخوف نہ ہو تو ایسی حالت میں نکاح کرنا سنتِ موٴکدہ ہے،۴۔نکاح کرنا اس وقت مکروہ تحریمی ہو جاتا ہے جب نکاح کرنے کے بعد بیوی کے مالی یاصنفی حقوق ادا نہ کرنے کا اندیشہ ہو،۵۔اور اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کے مالی یاصنفی حقوق ادا نہ کرنے کا، یا عورت پر ظلم کرنے کایقین ہو، یانکاح کرنے کا مقصد بیوی پر ظلم کرنا ہو تو پھر نکاح کرنا حرام ہے۔ (البحرالرائق، الدرالمختارعلی ردالمحتار، فتاوی محمودیہ) نکاح کرنے کے یہ درجات جس طرح مردوں کے لئے ہیں، اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں عام طور پر لڑکا اور لڑکی کا نکاح انکے والدین، اولیاء و سرپرست کراتے ہیں، یہ ایک بہتر، مہذب اور مستحسن عمل ہے، کیوں کہ دونوں ہی کے والدین، سرپرست اپنی اولاد کی دینی اور دنیاوی بھلائی کے ساتھ ساتھ کفو اور برابری دیکھ کر ہی نکاح کا رشتہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس میں دونوں طرف سے توازن برقرار رہے اور ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لئے یہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، البتہ والدین یا سرپرستوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے لڑکا یا لڑکی کی رضامندی کے بغیر زبردستی ان کا نکاح طے کردیں ،اگر چہ شریعت میں ولی کی اجازت کے بغیر کئےگئے نکاح کو ناپسندیدہ عمل سمجھا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے والدین اور اولیاء کو حکم فرمایا ہے کہ ’’وہ اپنی بالغ اولاد کا نکاح ان کی رضامندی کے بغیر نہ کریں‘‘(بخاری شریف) کیوں کہ ازدواجی زندگی دونوں میاں بیوی کو گزارنی ہے، اس لئے ان سے اجازت لی جائے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کو اجازت ہے بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ جس لڑکی سے نکاح کرنے کا ارادہ کر رہا ہے یا اس کے گھر والے جس لڑکی سے اس کا نکاح کرنا چاہتے ہیں، اسے وہ نکاح سے قبل دیکھ لے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے دل میں کسی عورت کو پیغامِ نکاح دینے کا ارادہ ڈال دے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ اسے دیکھ لے۔( ابن ماجہ )
حضرت جابر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’ جب تم میں سے کسی شخص کا ارادہ کسی عورت کو پیغامِ نکاح دینے کا ہو تو اگر وہ عورت میں کوئی ایسی چیز دیکھ سکتا ہو جو اسے اس کر نکاح کی طرف مائل کردے تو وہ ایسا کرسکتا ہے‘‘(ابو داؤد)
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ میں ایک موقع پر نبی کریمؐ کی مجلس میں تھا۔ ایک شخص آیا اور اس نے آپؐ کو بتایا کہ اس نے ایک انصاری عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ آپؐ نے دریافت کیا، کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے؟ اس نے جواب دیا، نہیں۔ تب آپ ؐنے فرمایا،’’جاکر دیکھ لو، اس لیے کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے‘‘۔(مسلم شریف) مندرجہ بالا احادیث سے نکاح سے پہلے اس خاتون کو دیکھنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے جس سے نکاح کرنا مقصود ہو۔ خیال رہے کہ اس خاتون کا چہرہ اور ہتھیلیاں ہی دیکھنا مباح ہے، اس لئے کہ چہرہ، ہی حسن وجمال پر یا پھر اس کی بدصورتی پر دلالت کرتا ہے اور ہتھیلیاں، عورت کے بدن کی لاغری، کمزوری یا صحت مندی پر دلالت کرتی ہيں، اور یہی جمہور علماء کا مذہب ہے۔
نکاح زندگی کا ایک اہم معاملہ ہے ،لہٰذا اس سلسلے میں اگر کوئی مشورہ طلب کرے تو اسے درست اور صحیح مشورہ دینا چاہئے۔ مشورہ ایک امانت ہے، لہٰذا لڑکا یا لڑکی یا اس کے خاندان کے بارے میں جو اچھی باتیں معلوم ہوں انہیں بتانا چاہیے اور اگر کوئی نامناسب بات معلوم ہو تو اسے بھی بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رشتہ طے کرتے وقت دین داری اور اخلاق کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہم آہنگی کے تمام پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ سوسائٹی، کلچر، رہن سہن، سماجی مقام، معاشی حیثیت، ذریعۂ معاش، ملازمت، مزاج، اندازِ فکر اور دیگر چیزوں کا جائزہ لے کر اچھی طرح دیکھ لینا چاہیے کہ دونوں کے درمیان ہم آہنگی ممکن ہے یا نہیں۔
نکاح کے معاملے میں ایک اور بات ملحوظ رکھنی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ رشتے کو منظور کرنے یا نہ کرنے کا آخری اختیار شریعت نے لڑکی کو دیا ہے، اسی لیے نکاح کے وقت اس کی مرضی معلوم کی جاتی ہے اور اس کی اجازت کے بعد ہی نکاح کی کارروائی انجام دی جاتی ہے۔ عہد رسالت میں ایک صحابیہ ؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا،’’میرے باپ نے میرا رشتہ اپنے بھتیجے کے ساتھ طے کردیا ہے، جب کہ یہ رشتہ مجھے پسند نہیں ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اختیار دیا اور فرمایا کہ اگر تمہیں یہ رشتہ پسند نہیں تو یہ نہیں ہوگا‘‘ تب اس لڑکی نے کہا ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! جو کچھ میرے باپ نے کیا وہ مجھے منظور ہے، میں تو بس یہ جاننا چاہتی تھی کہ کیا عورتوں کو اپنے نکاح کے معاملے میں کچھ اختیار ہے یا نہ نہیں‘‘ ( نسائی، ابن ماجہ) سماج اور معاشرے میں رائج بہت سارے مسائل جہاں ہماری روز مرہ کی زندگی میں اچھے نتائج کی ضامن ہوتی ہیں وہیں بہت سارے معاملات میں خلاف شریعت اور دنیا و آخرت میں شرمندگی کی باعث بنتی ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ہم ہر کام شریعت کے مطابق انجام دیں تاکہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکیں۔
(رابطہ۔9933598528 )
[email protected]>