مختار احمد قریشی
نکاح ایک مقدس بندھن ہے جو مرد اور عورت کے درمیان محبت، عزت، اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح میں عورت کی رضامندی بنیادی شرط ہے، اور کسی بھی جبر یا زبردستی سے کیا گیا نکاح شرعاً قابل قبول نہیں۔ قرآن پاک میں بھی واضح ہدایت دی گئی ہے کہ کسی عورت کو اس کی مرضی کے بغیر شادی پر مجبور نہ کیا جائے۔ نبی کریمؐ کی احادیث میں بھی اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا اور اگر وہ کسی نکاح کو ناپسند کرے تو اسے فسخ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس کے باوجود بعض معاشروں میں خواتین کو اپنی پسند کے اظہار کا موقع نہیں دیا جاتا، جس کے نتیجے میں نہ صرف کئی ازدواجی زندگیاں ناخوشگوار بن جاتی ہیں بلکہ سماجی اور نفسیاتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
عورت کی رضامندی محض ایک رسمی عمل نہیں بلکہ اس کا ازدواجی زندگی کی کامیابی میں گہرا تعلق ہے۔ جب ایک عورت اپنی خوشی اور اطمینان کے ساتھ نکاح کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اپنے شریکِ حیات کے ساتھ محبت اور وفاداری کے رشتے کو بہتر طریقے سے نبھا سکتی ہے۔ نکاح میں عورت کی مرضی کا احترام اس کی عزتِ نفس اور خودمختاری کا اعتراف ہے، جو ازدواجی زندگی کے استحکام کا باعث بنتا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بہت سے والدین اور سرپرست اپنی بیٹیوں کے جذبات کو نظرانداز کرکے انہیں اپنی مرضی کے مطابق رشتوں میں باندھ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ازدواجی تعلقات میں عدم مطابقت اور تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قانون میں خلع کی اجازت دی گئی ہے تاکہ اگر عورت ناپسندیدہ نکاح میں ہو تو اسے علیحدگی کا حق حاصل ہو۔اس لئے ضروری ہے کہ نکاح جیسے اہم فیصلے میں عورت کی مرضی کو اولین حیثیت دی جائے تاکہ ازدواجی رشتہ محبت، باہمی احترام، اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہو۔ والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ بیٹیوں کو اپنی پسند اور ناپسند کے اظہار کا پورا موقع دیں اور ان کی خوشی کو مقدم رکھیں۔ نکاح میں عورت کی رضامندی کا احترام نہ صرف اس کے بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے بلکہ اس سے خاندانی نظام بھی مستحکم ہوتا ہے۔ جب عورت کو نکاح کے فیصلے میں آزادی دی جاتی ہے، تو وہ اپنی ازدواجی زندگی میں زیادہ خوش اور مطمئن رہتی ہے۔اس کے برعکس اگر عورت کو زبردستی کسی ایسے شخص کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے جسے وہ پسند نہیں کرتی تو اس کا نتیجہ اکثر ناخوشگوار ازدواجی زندگی، طلاق، یا گھریلو ناچاقیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
بہت سے ممالک میں نکاح نامے پر عورت کے دستخط کو ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ نکاح باہمی رضا مندی سے انجام پایا ہے۔ تاہم کچھ علاقوں میں اب بھی روایتی رسم و رواج کی آڑ میں لڑکیوں کی رائے کو دبایا جاتا ہے اور ان سے مرضی کے مطابق نکاح کرنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔جو نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔عورت کی رضامندی کو نظرانداز کرنے کے معاشرتی نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ ایسی شادیوں میں جہاں عورت کو زبردستی شامل کیا جاتا ہے، وہ جذباتی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے، جس سے اس کی ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر نکاح میں باندھ دیا گیااور وہ ساری زندگی ذہنی اضطراب اور افسردگی کا شکار رہیں۔ اسی طرح جہاں شوہر اور بیوی کے درمیان محبت اور ہم آہنگی نہ ہووہاں اس کا اثر بچوں کی پرورش پر پڑتا ہے، جس کے منفی اثرات پورے سماج پر مرتب ہوسکتے ہیں۔نکاح میں عورت کی رضامندی کو یقینی بنانا معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے ایک بنیادی قدم ہے۔ والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے فیصلوں کا احترام کریں اور انہیں زبردستی کسی ایسے رشتے میں نہ باندھیں جس میں وہ خوش نہ ہوں۔ علماء اور سماجی کارکنان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ نکاح کے معاملے میں اسلامی اصولوں کی وضاحت کریں اور لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ نکاح زندگی بھر کا بندھن ہے اور اس میں عورت کی خوشی اور رضا مندی کو مقدم رکھ کر ہی ایک مضبوط اور خوشحال معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ نکاح میں عورت کو زبردستی شامل کرنا جائز نہیں، لیکن بدقسمتی سے بعض معاشروں میں روایتی سوچ اور خاندان کی عزت کے نام پر لڑکیوں کو مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسے رویوں کو بدلنے کے لیے تعلیمی اداروں، مساجد اور میڈیا کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں شعور بیدار ہو اور نکاح جیسے اہم فیصلے میں عورت کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ مزید برآں خواتین کو قانونی حقوق سے آگاہ کرنے کے لیے ورکشاپس اور سیمینار منعقد کیے جائیں تاکہ وہ اپنے حقوق کے بارے میں شعور حاصل کر سکیں اور کسی بھی غیر قانونی یا غیر شرعی دباؤ کا سامنا کرنے کے قابل ہو سکیں۔
معاشرتی طور پر نکاح میں عورت کی رضامندی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گھریلو ماحول میں بچیوں کو بچپن سے ہی اعتماد دیا جائے اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو یہ احساس دلائیں کہ ان کے جذبات اور خیالات قیمتی ہیں اور نکاح جیسے اہم معاملے میں ان کی رائے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے نہ صرف خواتین میں خود اعتمادی پیدا ہوگی بلکہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل بھی ممکن ہوگی جہاں نکاح خوشی اور باہمی رضا مندی کا ذریعہ بنے۔یاد رکھیں کہ نکاح میں عورت کی رضامندی کو محض ایک رسمی ضرورت نہیں سمجھا جائے بلکہ اسے ازدواجی زندگی کے استحکام، محبت اور خوشحالی کے لیے لازم ملزوم سمجھا جائے۔ یہ مسئلہ نہ صرف دینی اور اخلاقی اہمیت کا حامل ہے بلکہ ایک بہتر اور خوشحال معاشرے کی بنیاد سے وابستہ ہے۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]