مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
طعام ولیمہ ایک اہم چیز ہے اسے بھی سادہ بنانے کے لئے شعور کی بیداری نہایت ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ولیمہ کرنا سنت ہے اور ہر سنت کو سنت کے مطابق ادا کرنا خیر و برکت کا باعث ہے اور دونوں جہاں کی کامیابی اسی میں ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق وہ نکاح (شادی ولیمہ) مبارک ہے (اللہ و رسول کی نگاہ میں محبوب ہے) جس میں خرچ کم ہو اور محنت بھی زیادہ نہ ہو۔
شادی ولیمہ کی محفلوں کو آسان بنانے اسراف سے بچنے کی بات کو عام کرنے کے لئے ہمارے خطیب صاحبان، واعظین اور مفتیان عظام، علماء کرام و مشائخین کرام، انفرادی و اجتماعی سطح پر بھرپور کوششیں کریں اور اسے ایک تحریک کی شکل دیں کیوں کہ عوام اب بھی متذکرہ بالا شخضیتوں کی بات کو غور سے سنتے اور وزن دیتے ہیں لیکن یہاں پر ہدایت کے سرچشمہ قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے کہ ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو وہ بات تم کہتے کیوں ہو جو تم کرتے نہیں‘‘۔ کیوں کہ اگر خدانخواستہ قول و فعل میں یکسانیت نہ ہو تو رشد و ہدایت کی ساری کوششیں ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں اور اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ لوگ اپنے بزرگوں اور بڑوں سے اچھی چیزیں سیکھتے ہیں اور بْری باتوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر میں چند گذارشات پیش کرنا چاہوں گا جو شادی کو آسان بنانے کے ضمن میں مفید اور کارآمد ثابت ہونگی۔
(۱) شادی بیاہ کے بے جا رسومات کے منفی پہلوئوں کو معاشرے کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے۔
(۲) طعام ولیمہ کو سادگی سے کرنے کی وعظ بیان کے موقع پر تلقین کی جائے اور سادگی سے انجام پانے والے تقاریب کی ہمت افزائی کی جائے اور ایسے مبارک محفلوں کا ہر جگہ خوب چرچا کیا جائے، اور روزناموں میں نیوز کے ذریعہ اس کی اچھی تشہیر بھی ہو۔
(۳) لڑکی والے ان رشتوں کو مسترد کردیں جن میں بے جا مطالبات رکھے جاتے ہیں۔ یہ کام بڑا صبر آزما ہے اور خدا پر توکل کے بغیر ناممکن ہے، اگر متحدہ طور پر لڑکی والے لالچی قسم کے لوگوں کا بائیکاٹ کریں تو بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور شادیاں بھی آسانی کے ساتھ ہونے لگ جائیں گی۔
(۴) شادی کو آسان بنانے میں مالداروں کی یہ حکمت عملی ہونی چاہئے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی یا اپنے بیٹے کا ولیمہ، ان دونوں مواقع پر سادگی کا مظاہرہ کیا کریں اور اپنے مالدار ہونے کا اظہار اپنے عمل سے اس طرح کریں کہ مال عطا کرنے والے مالک کے محتاج و بے کس بندوں کی دستگیری کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کریں ورنہ تقاریب میں مال و دولت کو لٹادینا معاشرے کے لئے مہلک بیماری کا باعث ہے۔
(۵) رشد و ہدایت کے منصب پر فائز لوگ، سیاسی رہنمائی و رہبری کرنے والے قائدین، عوام کو حالات سے باخبر رکھنے والے مدیران و دانشوران ان سب کی متحدہ پالیسی یہ ہونی چاہئے کہ جہاں بھی شادی ولیمہ کی تقاریب میں دولت کا اسراف و زیاں ہورہا ہے اس کا بائیکاٹ کیا جائے اس طرح ان مسرفین کی حوصلہ شکنی کی جائے تو معاشرہ میں ایک صالح تبدیلی کی اْمید کی جاسکتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے کے اندر کئی بے جا رسومات جنم لےگئی ہیں، خاص طور پر شادی بیاہ کے معاملات میں بے جا رسومات کا چلن عام ساہوگیا ہے،دولت مند لوگ اپنے حساب سے اور درمیانی قسم کے لوگ اپنی طاقت کے مطابق بے جا رسومات اور اسراف میں مبتلا ہیں۔ غرض کہ مذکورہ دونوں طبقات اس لعنت میں ملوث ہیں جو کہ مسلم معاشرے کے لئے تباہی و بربادی کا باعث ہے اور یہ بھی کڑوی حقیقت ہے کہ اس کی بنیاد ڈالنے والی صرف خواتین ہی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ شادی کی بے جا رسومات نے آج ہمارے مسلم معاشرے کو کس طرح مصیبت میں مبتلا کر کے رکھ دیا ہے۔ گویا لڑکی کا کسی گھر میں تولد ہونا، قیامت کے برپا ہونے کے مصداق ہوگیا، یعنی قیامت سے پہلے قیامت ہوجاتی ہے۔اسے ہم اپنی بدبختی اور اللہ کے رسولؐ کی نافرمانی نہیں تو اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو چھوڑ کر اپنی طرف سے نئی نئی اور بے جا رسومات کو اپنی زندگی میں ایجاد کرلیا اور اسے رواج دے لیا ہے جبکہ ، ہمارے شعبہ حیات کے ہر موڑ پر کتاب سنت ہمیں رہنمائی کے لئے موجود ہے۔ یعنی ان میں یہ تعلیمات موجود ہیں کہ انسان کو اخروی کامیابی کے علاوہ دنیاوی کامیابی کیلئے کس طرح کا عمل کرناضروری ہے۔ چاہے معاملہ شادی بیاہ کا ہو یا کسی اور دوسرے امور کی انجام دہی سے تعلق کا،بہر حال یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ ملت اسلامیہ اپنے پاس ایک بہترین تعلیم رکھتے ہوئے بھی اس پر توجہ نہیں کرتی اور نہ ہی اس کے مطابق اپنے کو سنوارنے کی کوشش کررہی ہے۔
سارے جہاں والوں کیلئے رحمت اور محسن انسانیت بناکر مبعوث فرماے گئے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح و شادی بیاہ کے بارے میں ارشاد فرمایا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو تم نکاح کو آسان کرو تا کہ زنا مشکل ہوجائے اور آپؐ کی تعلیمات میں یہ بھی ملتا ہےکہ وہ نکاح بہت ہی مبارک ہے جس میں مشقت کم سے کم ہو، لیکن آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں نے نکاح کو جو کہ ایک عبادت ہے، انتہائی مشقت میں مبتلا کرنیو الی چیز بنالیا ہے۔ اس وقت جو لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں، ان کا سب سے بڑا مسئلہ جوڑے کی رقم اور معقول جہیز کی عدم فراہمی ہے کیونکہ اس کے بغیر کسی لڑکی کا دلہن بننے کا خواب ادھورا ہی رہتا ہے۔
کتاب اللہ و سنت رسولؐ میں ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ مسلم مرد اپنا مال خرچ کرتے ہوئے عورتوں کو اپنے عقد نکاح میں لائیں۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ہونے والی زوجہ (بیوی) کیلئے حسب گنجائش کپڑے فراہم کرے اور اس کے رہنے اور کھانے کا بندوبست کرنے اور بطور مہر کے جو بھی قرار داد منظور ہو ،اسے خوشدلی سے ادا کرے کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔ اس لئے مرد کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے روپیہ خرچ کرے اور عورت کی ضروریات کی تکمیل کرے نہ کہ اُلٹا اس سے روپیہ پیسہ بٹورے، اس طرح کا عمل صنف نازک پر ظلم اور اپنی مردانگی کو داغدار کرنا ہے۔کیونکہ اسلام میں عورت کے مقابل مرد کا درجہ ایک گنا زیادہ رکھا گیا ہے۔ فرمایا،’’ مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر جو فضیلت بخشی ہے ،یہ دو وجہ سے ہے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ خود مرد کو ایک گنا زیادہ درجہ عطا فرمائے ہیں یہ تو اسی کی مصلحت ہے اور وہ خود اس کی اچھائی سے خوب واقف ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ مرد آدمی اپنا مال عورت پر خرچ کرتے ہیں، اسی سبب اللہ نے مرد کی حیثیت قوام کی رکھی ہے،قوام اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالات میں چلائے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو‘‘۔شادی بیاہ کے معاملہ میں بے جا اور غیر شرعی رسومات کے تحت خواتین خود اپنے پیروں پر کلہاڑی چلا رہی ہیں۔ اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات بخوبی ہمارے سامنے آتی ہے کہ جتنے بھی رسومات ِ بد چل رہے ہیں، خود خواتین کے دم خم سے قائم ہیں۔ بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل صرف خواتین ہی حل کرسکتی ہیں، شرط یہ ہے کہ بے جا رسومات کے بوجھ کو معاشرے سے خارج کردیں اور ایام جاہلیت کی زنجیروں کو کاٹ پھینکیں۔(جاری)
(رابطہ۔9849099228)
[email protected]