معاشرت
محمد امین
کشمیر کی ہری بھری وادیوں، باغات، اور ہندوستان کے دیگر دیہی علاقوں میں ایک خاموش ناانصافی صدیوں سے دفن ہے۔ شادی کے وقت مسلمان عورتوں کو اُن کے شوہروں کی طرف سے ’’حق مہر‘‘ کے طور پر زمین دی جاتی ہے،یہ مہر بعض اوقات نکاح نامے میں درج ہوتی ہے یا کسی حلف نامے کے ذریعے ثابت کی جاتی ہے۔ لیکن جب شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے تو یہ مذہبی اور قانونی وعدہ یکاک غائب ہو جاتا ہے۔ بیٹے، بیٹیاں اور دیگر ورثاء اکثر اس مہر کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور پٹوار و تحصیل دفاتر کی راہداریوں میں یہ وعدہ، فنی بہانوں کی نذر ہو جاتا ہے۔
اسلامی قانون کے تحت ’’حق مہر‘‘ شوہر کی طرف سے بیوی کو دی جانے والی لازم رقم یا جائیداد ہے۔ یہ جہیز نہیں ہے بلکہ بیوی کا حق ہے جو نکاح کے وقت یا بعد میں واجب الادا ہوتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ اور ہائی کورٹس نے بارہا فیصلے دئیے ہیں کہ حق مہر شوہر پر ایک قرض ہے جو اس کی وفات کے بعد بھی اس کی جائیداد سے ادا ہونا ضروری ہے۔
حق مہر زمین، سونا، نقد رقم یا دیگر اثاثوں کی شکل میں دیا جا سکتا ہے،اگر مؤخر ہو، تو موت کے بعد قرض بن جاتا ہے،وراثتی تقسیم سے پہلے حق مہر کی ادائیگی ضروری ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب حق مہر زمین ہو تو کیا یہ ہندوستان کے ریونیو قوانین کے مطابق تسلیم شدہ ہے؟
اکثر اوقات شوہر نکاح نامے میں زمین کا ذکر کر کے اُسے بیوی کو مہر کے طور پر دیتا ہے یا بعد میں کوئی حلف نامہ بناتا ہے۔ کہیں کہیں رجسٹر شدہ ہبہ (gift) بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر رجسٹرڈ ہبہ نہ ہو تونکاح نامہ ایک قانونی دستاویز ہے جو بھارتی شہادت ایکٹ (Indian Evidence Act) کے تحت قابل قبول ہے۔ اگر اس میں زمین کی تفصیلات ہوں (خسرہ نمبر، گاؤں، رقبہ) تو یہ شوہر اور بیوی کے درمیان ایک معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن ریونیو دفاتر میں پٹواری یا تحصیلدار اکثر صرف نکاح نامے کی بنیاد پر انتقال کرنے سے انکار کرتے ہیں۔اگر شوہر زندگی میں کوئی حلف نامہ دے دے جس میں یہ زمین مہر کے طور پر دی گئی ہو تو یہ بیوی کے دعوے کو تقویت دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی رجسٹرڈ ہبہ یا وارثوں کی رضا مندی نہ ہو تو ریونیو عملہ ہچکچاتا ہے۔ ریونیو قوانین کے مطابق (خصوصاً جموں و کشمیر میں)وراثت (وراثت نامہ)،فروخت (انتقال)،ہبہ (ہبہ نامہ)،عدالتی فرمان کی بنیاد پر زمین کا انتقال ہو سکتا ہے۔ حق مہر کی زمین کا زمرہ ’’ہبہ‘‘ میں آتا ہے۔ لیکن سوال باقی ہے کہ کیا نکاح نامہ اور حلف نامہ کافی ہیں؟
عدالتی فیصلے۔ بیوی کا حق تسلیم شدہ: (الف) امینہ بی بنام ریونیو حکام – کرناٹک ہائی کورٹ (2014)عدالت نے کہ کہا کہ اگر نکاح نامے میں زمین کا ذکر ہے اور بیوی کو قبضہ دے دیا گیا ہے، تو صرف ہبہ نامے کے نہ ہونے کی بنیاد پر انتقال سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔(ب) فاطمہ بنام ریاست – جموں و کشمیر ہائی کورٹ (2010)عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ،ریونیو ریکارڈ میں اندراج صرف مالی نوعیت رکھتا ہے، ملکیت ثابت نہیں کرتا۔ اگر نکاح اور مہر کی دستاویزات موجود ہیں اور بیوی زمین پر قابض ہے تو اسے مالکہ تصور کیا جانا چاہیے۔(ج) عبدالقدیر بنام سلیمہ – سپریم کورٹ (1886)یہ پرانا مگر اہم فیصلہ تھا جس میں کہا گیا کہ مہر ایک سول قرض ہے جو بیوی کا حق ہے، چاہے کوئی رجسٹرڈ دستاویز نہ بھی ہو۔ یہ مسائل تب شدت اختیار کرتے ہیں جب شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے اور بیوی زمین کی منتقلی کا مطالبہ کرتی ہے۔عام طور پر ریونیو دفاتر کا جواب:ورثاء کی رضا مندی (relinquishment deed) کے بغیر ممکن نہیں۔رجسٹرڈ ہبہ نامہ موجود نہیں۔عدالت سے حکم لائیں تب ہی ممکن ہے۔اس سخت رویے کے نتیجے میں بیوہ کو سول کورٹ جانا پڑتا ہے، وقت، پیسہ اور عزت تینوں داؤ پر لگ جاتے ہیں۔
رجسٹریشن کی کمی:زمین ایک غیر منقولہ جائیداد ہے۔ ₹100 سے زائد کی جائیداد کی منتقلی رجسٹرڈ ہونی چاہیے (Transfer of Property Act)۔
قانونی خطرات:اگر بعد میں وارث عدالت جائیں تو پٹواری و تحصیلدار پر الزام آ سکتا ہے۔
رہنمائی کی کمی:ریونیو ہینڈبکس میں مہر کی زمین کے انتقال کے بارے میں واضح ہدایات نہیں۔
قبضے کی غیر موجودگی:اگر عورت زمین پر رہتی نہیں تو کیس کو مشکوک سمجھا جاتا ہے۔
زمینی حقیقت: بیوہ کی آواز دبا دی جاتی ہے۔اننت ناگ، بارہمولہ، مظفرنگر جیسے اضلاع میں عام طور پر نکاح ناموں میں 2 سے 5 کنال زمین کا ذکر ہوتا ہے۔ بعض عورتیں دہائیوں سے اس زمین پر رہ رہی ہوتی ہیں، لیکن جب انتقال کی درخواست دیتی ہیں، تووارث اُسے کچھ ’’گزر بسر‘‘دے کر زمین چھوڑنے کا دباؤ ڈالتے ہیں،کلرک اس کی فائل کو گھماتے ہیں یا عدالت کا مشورہ دیتے ہیں،قانونی مدد میسر نہیں، سماجی دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔جو چیز عزت کا وعدہ تھی، وہ ذلت کی جنگ بن جاتی ہے۔
حل کیا ہے؟ انتظامی و قانونی اصلاحات کی ضرورت: نکاح نامہ + حلف نامہ کو قانونی ثبوت تسلیم کیا جائے،ریونیو ڈیپارٹمنٹس ایک سرکلر جاری کریں:اگر زمین کی تفصیلات واضح ہوں،کوئی فوری اعتراض نہ ہواور بیوی زمین پر موجود ہو یا قبضہ ثابت ہو تو انتقال ہو سکتا ہے۔
مسلم پرسنل لاء کے تحت حق مہر کی بنیاد پر انتقال، جس میں صرف نکاح نامہ، حلف نامہ، قبضے کا ثبوت اور (اگر ممکن ہو) وارثوں کی عدم اعتراض کی درخواست کافی ہو۔
عوامی آگاہی:ائمہ، قاضی حضرات اور نکاح رجسٹرار کو چاہیے کہ نکاح نامے میں مہر کا ذکر وضاحت سے کریں،رجسٹرڈ ہبہ کی ترغیب دیں۔
خواتین کے لیے ریونیو کونسلنگ سیل: تحصیل دفاتر میں خصوصی ’’خواتین لینڈ ہیلپ ڈیسک ‘‘قائم ہوں جوبیوہ کی مدد کریں،حلف نامے تیار کریں،خاندان میں مصالحت کروائیں۔ تحصیلداروں کو تربیت دی جائے کہ انتقال ملکیت نہیں بلکہ اندراج ہے،عدالت فیصلہ کرے، پٹواری نہ بنیں منصف۔
جب ریاست مہر کی زمین پر انتقال کی اجازت نہیں دیتی، تو وہ صرف مسلمان خواتین کا شرعی حق نہیں چھینتی بلکہ اُن کی اقتصادی خودمختاری پر بھی ضرب لگاتی ہے۔ دیہی ہندوستان میں زمین صرف زمین نہیں،یہ شناخت ہے، تحفظ ہے، ورثہ ہے۔ہر بار جب کسی بیوہ کو مہر کی زمین پر انتقال سے روکا جاتا ہے تو ہم اس کی شادی کے عہد کو کاغذی سراب بنا دیتے ہیں۔ قانون واضح ہے۔ شریعت واضح ہے۔ ناکامی صرف عملدرآمد میں ہے۔یہ معاملہ صرف ریونیو اندراج کا نہیں بلکہ ہندوستان کی مسلمان عورتوں کے شہری و مذہبی حقوق کا مسئلہ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ریاستیں،بالخصوص جموں و کشمیر جیسی زمین حساس ریاستیںحق مہر پر مبنی زمین کی منتقلی کے لیے ایک سادہ، منصفانہ اور خواتین دوست نظام تشکیل دیں۔حق مہر صرف وعدہ نہیں عورت کا حق ہے، اسے بھلایا نہ جائے۔