مسعود محبوب خان
آج کے دور میں جہاں دین کا شعور سطحی اور رسوم و رواج کی زنجیریں مضبوط ہو چکی ہیں، وہاں ہم نے نکاح جیسے پاکیزہ بندھن کو بھی ایک فیشن شو میں بدل دیا ہے اور منگنی جیسے مراحل کو بازارِ نمائش کا عنوان دے دیا ہے۔منگنی، جو دراصل نکاح کی تمہید ہے نہ تو شریعت میں کوئی لازم و ملزوم رکن ہے نہ ہی عبادت کا درجہ رکھتی ہے بلکہ یہ محض ایک عرفی روایت ہے۔ مگر افسوس کہ اسی عرفی روایت کو ہم نے شریعت کے مقام پر لا بٹھایا ہے اور اس میں ایسی ایسی بدعات داخل کر دی ہیں جو نہ صرف دین کی روح کے منافی ہیں بلکہ معاشرے میں بے حیائی، اسراف اور بے مقصد اختلاط کے دروازے بھی کھول دیتی ہیں۔ اب یہ رسم وہ طبقہ بھی اختیار کرنے لگا ہے جو دین کا علمبردار کہلاتا ہے۔
یہ تحریر ایک دردمند پکار ہے،جو ہمارے دلوں میں اس سوال کو جنم دے۔ کیا ہم دین کو رسموں کے تابع بنا چکے ہیں؟
زمانے نے کروٹ لی، تہذیبیں بدلی اور رسم و رواج نے نئی صورتیں اختیار کیں اور کچھ تبدیلیاں ایسی ہوئیں جو روحِ دین کے دامن کو تار تار کر گئیں اور جو معاملات کبھی سادگی، وقار اور دینی اصولوں کے سائے میں سر انجام پاتے تھے، وہ اب فیشن، نمائش اور غیر شرعی اختلاط کا روپ دھار چکے ہیں۔ منگنی جو دراصل دور رواں میں نکاح سے پہلے ایک اعلانِ رشتہ ہے، اُسے آج ہم نے ایسا ’’میگا ایونٹ‘‘بنا دیا ہے گویا کسی شاہی تقریب کا انعقاد ہو رہا ہو۔ کیا اسلام ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ نکاح سے پہلے ایک غیر محرم لڑکی کو سب کے سامنے سجا سنوار کر پیش کیا جائے؟ کیا یہ وہی دین ہے جس نے نگاہِ بد سے بھی بچنے کا حکم دیا؟ منگنی کی رسم اگرچہ فی نفسہ ممنوع نہیں، مگر اس کا انداز، اس کا ماحول اور اس کی فضاء اگر غیر شرعی ہو جائے تو وہ باعثِ فخر نہیں، باعثِ افسوس بن جاتی ہے۔ اسلام نہ تو اسراف کا قائل ہے نہ اختلاطِ مرد و زن کا نہ غیر ضروری نمائش کا۔ بلکہ وہ ہر قدم پر ہمیں تقویٰ، اعتدال اور حیاء کی راہ پر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا — کیا ہم وہی قوم ہیں جس نے حضرت فاطمہؓ و حضرت علیؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا نکاح اپنی سادگی میں زمین و آسمان کو شرما دینے والے وقار کے ساتھ دیکھا تھا؟ یا ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو اپنی ہی بیٹیوں کی حیا کو بازارِ رسم و رواج میں نیلام کرتی ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم منگنی جیسے معاملات کو دوبارہ دین کے ترازو میں تولیں اور ان میں سے ہر اُس شے کو خارج کریں جو شریعت سے متصادم ہے۔
آج کا مسلمان جدیدیت کی چکاچوند میں ایسا محوِ خواب نظر آتا ہے کہ اُسے نہ روشنی کی حقیقت یاد ہے، نہ اندھیرے کا انجام۔ نکاح جو ایک پاکیزہ عبادت، ایک بابرکت بندھن، اور سیرتِ محمدی ؐ کا مظہرِ کامل تھا، اُسے آج ہم نے محض ایک سماجی تقریب، ایک دنیاوی نمائش اور فیشن شو کی صورت دے دی ہے۔ اسلام نکاح کو تزویجِ قلوب، تطہیرِ معاشرہ اور تعمیرِ نسلِ انسانی کا ذریعہ بناتا ہے۔ یہ صرف دو افراد کے درمیان معاہدہ نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان محبت، وفا اور اعتماد کا عہد ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس بابرکت عمل کو ایک ایسا ’’شو کیس‘‘ بنا دیا ہے جس میں روحِ دین ناپیداور ظاہری چمک دمک حاوی ہے۔ آج فارم ہاؤسز میں روشنیوں کی جھلک، لباسوں کی نمائش، موسیقی کی لے اور مہمانوں کی گہماگہمی تو موجود ہے، مگر نکاح کی اصل روح — سادگی، پاکیزگی اور دینی شعور — گم ہو چکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے نکاح کو نہ صرف دنیاوی بنادیا ہے، بلکہ اسے غیر اسلامی روایات سے آلودہ بھی کر دیا ہے۔ مخلوط محفلوں میں بےحیائی کا جو سماں بندھتا ہے، وہ نہ صرف اسلامی اقدار کی نفی ہے بلکہ معاشرتی تباہی کا پیش خیمہ بھی ہے۔
اگر ہمیں اپنے گھروں میں سکون چاہیے، اپنی نسلوں میں پاکیزگی چاہیے اور اپنے معاشرے میں رحمت و برکت کا نزول چاہیے تو لازم ہے کہ ہم نکاح کو اُس صورت میں واپس لائیں جس کی تصویر رسولِ مکرمؐ نے ہمیں دکھائی تھی — سادہ، باوقار، پردہ دار اور برکت سے بھرپور۔ اسلام ہمیں دکھاوے، اسراف اور مخلوط معاشرت کی تعلیم ہرگز نہیں دیتا بلکہ وہ تو زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں تقویٰ، حیاء، سادگی اور اخلاص کا درس دیتا ہے۔
لہٰذا لازم ہے کہ ہم نکاح کو بازارِ نفس نہیں، عبادت گاہِ روح بنائیں — جہاں دو دلوں کا نہیں، دو روحوں کا وصال ہو اور جہاں شیطان نہیں، رحمت کے فرشتے موجود ہوں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف ایسی رسموں سے کنارہ کشی کریں، بلکہ اس رویے کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کریں۔ دین کی عزّت، حیاء کی حفاظت اور ایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہم منگنی کی اس قبیح رسم کا اجتماعی بائیکاٹ کریں اور امت کو دوبارہ اُس دین کی طرف پلٹائیں جو وقار، طہارت، سادگی اور برکت کا علمبردار ہے۔
اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو زندگی کے ہر گوشے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وہ صرف عبادات اور عقائد تک محدود نہیں بلکہ رشتہ و نکاح، لباس و معاشرت اور خوشی و غم کے لمحات میں بھی ایک متوازن، پاکیزہ اور بابرکت طرزِ زندگی کا درس دیتا ہے۔ رسمِ منگنی اگرچہ شریعت میں منع نہیں، مگر اس کی موجودہ شکل جو دکھاوے، بے حیائی، اختلاط اور فضول خرچی سے عبارت ہے، وہ اسلامی تعلیمات سے سراسر متصادم ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں، اپنی خوشیوں کو شریعت کی حدود میں مقید کریں اور اُن پاکیزہ نمونوں کو اپنائیں جو ہمارے نبی مکرم ؐ اور صحابہ کرامؓ نے اپنے عمل سے پیش کیے۔ رسمِ منگنی کو اگر برقرار رکھنا ہو، تو اس کا انداز وہی ہو جو دینِ اسلام کی روح کے مطابق ہو — ،سادگی سے، وقار سےاور پردے کی پاسداری کے ساتھ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں محفوظ ہوں، ہمارے نکاح بابرکت ہوں اور ہمارے معاشرے میں پاکیزگی کا دور دورہ ہو، تو ہمیں اپنے رسم و رواج کو دین کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا اور ہر اس پہلو سے گریز کرنا ہوگا جو ہماری روحانی ترقی میں رکاوٹ بنے۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]