Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

نکاح۔۔۔مشکلات کے نرغے میں کیوں؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 17, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
کشمیر میں آج کل شادی بیاہ کی تقریبات کا موسم اپنے جوبن پرہے۔شادی بیاہ بڑی خوشی کا موقع ہوتا ہے کہ جب دو انسان رشتہ ازدواج میں بندھ کر ایک پاک و مقدس منزل کی جانب ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر گامزن ہوتے ہیں۔ شر عی نکاح کی وساطت سے زوجین فطرت کا داعیہ پورا کر کے راحت ہی محسوس نہیںکرتے ہیں بلکہ ان کے لئے تواترنسل کے ساتھ ساتھ سماجی وتہذیبی زندگی کا سفر بھی آسان ہوجاتا ہے ۔ نکاح کی صورت میںاولاد کا عطیہ ٔ الہٰیہ،ا ن کی تعلیم و تربیت اور ان سے سلسلہ  ٔ نسب جاری رکھنے میں اللہ تعالیٰ نے جو انمول نعمتیں ، حکمتیںاور امانتیںمیاں بیوی کو سونپ دی ہیں ان کے برکات و انعامات کا کوئی حدوحساب نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاںشادی بیاہ کا تصور چونکہ کچھ اور ہے اس لئے میکے والوں کے لئے دلہن کی رخصتی ایک کٹھن مرحلہ ہوتی ہے کہ ایک طرف لاڈلی بیٹی کا گھرسے رخصت ہونے کا غم سارے ماحول پر حاوی ہوتا ہے ، دوسری طرف پرائے اورا جنبی ماحول میں لاڈلی کے دل لگنے اور سسرال میں امن وآشتی اور محبت و یگانگت میسر ہونے کی دعائیں قلب وذہن کے نہاں خانوں میں ہلچل مچاتی ہیں۔
 نکاح چونکہ خوشی کا موقع ہوتا ہے، اس لیے ہمارے یہاں اسے ظاہر کرنے کے لئے شادی کا لفظ مستعمل ہے۔ نکاح کی ضرورت انسانی فطرت میں پہلے سے ہی ودیعت کی گئی ہے ،اس لئے اسے سر انجام دینابھی عین فطرت کے مطابق ہونا چاہے ۔ چنانچہ فطرتِ سلیمہ کا دوسرا نام اسلام ہی ہے اور اسلام ایک رحمت بخش نظام ہے ۔اسلام میں نکاح کا درجہ عبادات کے ہم پلہ ہے۔ تمام انبیائے کرامؑ بانکاح تھے سوائے حضرت عیسٰیؑ کے ،اللہ انہیں دوبارہ آسمان  سے زمین پر جب بھیج دے گا توآپؑ کا زمین پر باضابطہ نکاح ہوگا۔ قرآن میںفرما یا گیا:اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان (آدم ؑ) سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں کے ذریعہ سے بہت سارے مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا (النساء /۱)۔اسی طرح سے نبی صلی ا للہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ شادیاں کرو اور اپنی نسل کو خوب بڑھائو ، اس لئے کہ (قیامت کے روز) میں تمہارے ذریعہ دوسری امتوں کے مقابلہ میں اپنے سر کو اونچا کروں گا(بیہقی ) ۔ اسلام کا ہر حکم اور ہر ہدایت انسانی دماغ اور فطرت کی پکار سے میل کھاتی ہے، یہاں کوئی خلاف فطرت بات ہو ہی نہیں سکتی جس کا انسان کو مکلف ٹھہرایاگیا ہو۔ اسلامی عبادات و احکامات کا مطلب ہی انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا :ِ اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کرذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا( البقرۃ/۲۸)۔ اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمایا :اللہ تمہارے ساتھ نر می کرنا چاہتا ہے، سختی نہیں( البقرۃ/ ۱۸۵)، لیکن اس زمانے میںخدا کے کچھ بندوں کو اپنے اوپر آسانی کا ہونا جیسے عیب لگتا ہے ،اس لئے انہوں نے نفس کو خوش کرنے کے لئے اپنے اوپر غیر ضروری مشقتیں ڈالنا ضروری سمجھا ہے۔ فرض نمازوں سے روح کی پیاس نہ بجھ گئی تو مسجد میں ہی بیٹھنے کو خشوع وخضوع قرار دیا، حالانکہ دنیا کے امور خداخوفی کے ساتھ چلانا بھی عبادت کا جزولاینفک ہے ۔ کسی نے ہدایاتِ دین کے روح کو نہ سمجھا تو نفسانیت کے فریب میں آکر رقص و سرور سے دل بہلائی کو’’خدا سے لو لگانے والا عمل‘‘ کہہ ڈالا ۔ اسی طرح بعض حضرات نے اصل عبادات کو چھوڑ کر اپنے اوپر اتنے سارے بوجھ لاددئے جن کا خدا نے بندوں سے مطالبہ ہی نہ کیا ۔ یہی حال ہمارے یہاں نکاح کے مقدس عمل کا ہوا ہے۔ ہمیں محض ایجاب و قبول اور مہر کی ادائیگی سے تسلی نہیں ہو تی، اس لئے ان کے ساتھ دیگر غیر اسلامی رسم و رواج کا نتھی کر نا ضروری سمجھ بیٹھ ہیں ، اگرچہ میں ہم اپنا پیسہ اور وقت دونوں دل کھول کر ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ ہم نے یہ خدوساختہ سماجی دستور بنایا ہے کہ اگر نکاح سے پہلے دلہا دلہن میں لاکھوں روپے مالیت کے زیورات کا تبادلہ نہ ہوا تو ان لوگوں کی سماج میں ناک کٹ جاتی ہے بلکہ ایسی نکاح خوانی کو نحوست آمیز تک سمجھا جاتا ہے۔ شادی کے نام پر اگر غیر محرم مردو زن کے اختلاط کے ساتھ ناچ نغمہ نہ ہو تو خوشی پھیکی پھیکی لگتی ہے، اگر وازہ وان میں کوئی کمی پیشی یا قناعت پسندی ہو، فضولیات ورسومات سے پر ہیز ہو توشادی کو شادی نہیں بلکہ مسکینی کی علامت اور دقیانوسیت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر دلہن اپنے ساتھ سسرال کے لئے روز مرہ کی چیزوں کا انبار بطور جہیز ساتھ نہ لائے تو زندگی بھر اسے کوسا جاتا ہے کہ تم خالی ہاتھ آئی۔ بسااوقات اسی وجہ سے سسرالی رشتوں میں دراڑیں، جہیزی جھگڑے، طلاقیں اور دیگرمصیبتیں ازداوجی زندگیوں کو بھسم کر دیتی ہیں ۔ خاندان کی بساط محبت اور انڈر سٹینڈنگ پر کھڑی ہوتی ہے، جب انہی دو عوامل کو نظرانداز کیا جائے تو گھر کاسکون ختم اور تہذیب وشرافت کاچراغ گل ہو جاتا ہے۔
 ہمارے اندرشادی بیاہ کے سلسلے میں خرافات و فضولیات کے عمل دخل کی ایک اہم وجہ مسلمانوں کا ہندو تہذیب اور اس کے رسم و رواج کے ساتھ تاریخی میل ملاپ ہے۔ ہندوؤں کے یہاں شادی کی تقریب میں پنڈت جب کچھ ناقابل فہم سنسکرت شلوک پڑھ لیتا ہے تو دولہے دلہن کو شادی کے مقدس بندھن میںرسماََ باندھ لیا جاتاہے۔ بر سر موقع پرلڑکی کا باپ ،بھائی یا سر پرست دلہن کو دولہے کاجیون ساتھی سمجھ کر نہیں بیاہتا بلکہ کنیا دان کر کے اپنی لاڈلی کو گویاکشکول ِگدائی میں ڈال دیتاہے ، حتیٰ کہ مذہبی طور شوہر کے مرنے پردان شدہ کنیا کو ستی بھی ہونا پڑتا تھا جسے مسلم حکمرانوں نے ممنوع قرار دیا۔ شادی کی تقریب میں منڈپ کے اردگرد دولہے دلہن کو سات پھیرے لگوائے جاتے ہیں ، ناچ نغمے ہوتے ہیں ، لڑکی والے براتیوں کی شکم سیری میں کوئی کسر نہیں رکھتے اور باقی فضولیات کے علاوہ نقد نارائین بھی لڑکے والوں کواداکر جاتے ہیں ۔ہندو ؤں کے ہاں چونکہ شادی بیاہ کا کوئی بر تر اخلاقی ہدف کہیں موجود ہی نہیں ، اس لئے ہم بھی شادی کے روحانی مفہومات سے نابلد رہے۔ ہندوؤں میں مرد یوتا اور عورت اُس کی داسی ہوتی ہے جس کی کوئی ذاتی حیثیت ہوتی ہی نہیں۔اسلام اس کے برعکس عورت کو اتنا ایمپاور کرتاہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں بلا شرکت غیرے ملکہ اور مالکن کا درجہ پاتی ہے ،وہ شادی کر کے نوکرانی یا داسی نہیں ہوتی بلکہ ہوم میکر اور ہیومن بلڈر ہو جاتی ہے۔ ہمارے یہاں شادی بیاہ میں جو افراط وتفریط پائی جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین اسلام سے دوری اختیار کر کے اغیار کی تقلید اپنائی ہوئی ہے۔ 
 واضح رہے کہ فطرت کے تقاضوں کے پیش نظر جب مسلم مرد اور عورت کے لئے نکاح کے بندھن میں جڑ جانا لازمی قرار پایا ہے تو لا محالہ اس سلسلے میں دونوں پر کچھ فرائض ا ور کچھ حقوق عائد ہونابھی ناگزیر ہے۔ فر ائض اور حقوق کے اسلامی چارٹر پر میاں بیوی دونوں خلوص ومحبت سے عمل پیراہوجائیں تو زندگی کی کشتی پار لگ جاتی ہے، ورنہ نہیں کبھی نہیں ۔ ہمارے سماج میں عرصہ ٔدراز سے شادی بیاہ کے معاملے میں طرح طرح کی مشکلیں اور رکاوٹیں در آئی ہیں ۔ مثلاً اس منفی ذہنیت نے ہم میں مضبوطی سے دوام پکڑ لیا ہے کہ اگر لڑکا سرکاری نوکری نہیں کر رہا ہے تو وہ قابل قبول دولہا نہیں ہے۔اسی طرح یہ لادین ذہنیت بھی جڑ پکڑ چکی ہے کہ اگر لڑکی سرکاری نو کری میں نہیں تو گئی کام سے۔اس چیز نے ہمارے سماج کے اخلاقیات کو اکھاڑ پھینکا ہے ۔ یہ بات کسی سلیم ا لعقل فردبشرسے چھپی نہیں کہ سرکاری نوکری کسی کارخانے کا پروڈکٹ نہیں کہ مارکیٹ میں ا س کی زیادہ سے زیادہ سپلائی کی جائے ۔ دنیا سرکاری نوکری سے بھی کچھ آگے ہے مگر دقیانوسی سوچ والے یہ ماننے کو تیانہیں ۔ جب سرکاری نوکریوں کے طویل انتظار میں قابل نکاح جوڑوں کی عمریں ڈھل جائیں تو اس کے برے اثرات سماج پر کیوں نہ مرتب ہوں ؟ ہماری وادی کی معیشت کا خدا ہی حافظ ہے مگر پھر بھی یہ اللہ کا فضل واحسان ہے کہ اور وں کی بہ نسبت یہاں کم وبیش  ہر ایک کے پاس روٹی، کپڑا اور مکان کی بنیادی ضروریات موجود ہیں اور یہاں الحمدللہ معاش کمانے کے حوالے سے اتنی تنگ دستی نہیں پائی جاتی ہے کہ نوجوان نکاح کا بار اٹھا ہی نہ پائے۔ بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی خانہ آبادی سے اللہ معاشی زندگی کی راہیں کھولتا ہے اور یہ اس کا اپنے متوکل بندوں سے وعدہ ہے۔ فرمانِ رسول ؐ کے مطابق نکاح کرنے پر معاشی حالات میں سدھار آنے کی بشارت ہے ۔ ایک اورجگہ ارشاد فرمایا گیا ہے : تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ تعا لیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا ، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے (النور /۳۲)۔ اصل میںیہ لادینیت اور مادیت کے نمائندہ زمانے کے خرافات او رسومات ِ بد کاصلہ ہے جن کے چکر میں نکاح دشوار اور بدچلنی آسان ہورہی ہے۔
 رابطہ9622939998:  
ای میل[email protected]
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ٹرمپ کے ٹیرف کے سامنے مودی کا جھکنا یقینی: راہل
تازہ ترین
سری نگر پولیس نے ’یو اے پی اے ‘کے تحت 1.5 کروڑ روپے کی جائیداد ضبط کی
تازہ ترین
شری امرناتھ یاترا: بھگوتی نگر بیس کیمپ سے قریب 7 ہزار یاتریوں کا چوتھا قافلہ روانہ
تازہ ترین
گرمائی تعطیلات میں توسیع کی جائے ،پی ڈی پی لیڈر عارف لائیگوروکا مطالبہ
تازہ ترین

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?