عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی// سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں میں ججوں کی تقرری سے متعلق ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ سول جج(جونئر ڈویژن) کے عہدے کے امیدواروں کے لیے کم از کم تین سال کی وکالت لازمی ہوگی۔ عدالت عظمی نے واضح کیا کہ ریاستی حکومتیں اور تمام ہائی کورٹس متعلقہ قواعد و ضوابط میں ترمیم کریں تاکہ اس فیصلے پر عملدرآمد ممکن ہو۔سپریم کورٹ کے مطابق، یہ ضروری ہے کہ سول جج (جونئر ڈویژن) کے امتحان میں شریک ہونے والے کسی بھی امیدوار کے پاس عدالتوں میں تین سال کی وکالت کا تجربہ ہو۔ یہ تجربہ بار میں کم از کم 10 سال سے رجسٹرڈ وکیل سے تصدیق شدہ ہونا چاہیے۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ جو امیدوار پہلے ہی لا کلرک کے طور پر کام کر چکے ہوں، ان کی اس مدت کو بھی قابل قبول تجربے میں شامل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، منتخب ہونے والے جج صاحبان کو عدالتی کارروائی شروع کرنے سے پہلے ایک سال کی تربیت لینا ضروری ہوگا۔تاہم، جہاں ہائی کورٹس نے پہلے ہی سول جج (جونئر ڈویژن)کی بھرتی کا عمل شروع کر دیا ہے، وہاں یہ شرط لاگو نہیں ہوگی۔ عدالت نے سول جج (سینئر ڈویژن)کیلئے اندرونی امتحانات کے ذریعے ترقی کے نظام کو بھی بہتر بنانے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ان امتحانات کے ذریعے دی جانے والی ترقی کا موجودہ 10 فیصد کوٹہ بڑھا کر 25 فیصد کیا جائے۔ اس کے لیے تمام ریاستیں اپنے سروس رولز میں ترمیم کریں گی تاکہ یہ اصلاح ممکن ہو سکے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ جو بھرتی کی کارروائیاں عدالت میں معاملے کے زیر التوا ہونے کی وجہ سے مخر کر دی گئی تھیں، اب وہ نئے ترمیم شدہ قواعد کے مطابق مکمل کی جائیں گی۔سپریم کورٹ نے پیر کے روز ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں کی پنشن سے متعلق ایک اور اہم فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت نے ہدایت دی کہ تمام ریٹائرڈ ججوں کو ون رینک، ون پنشن پالیسی کے تحت یکساں پنشن دی جائے۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی کی سربراہی والی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ چاہے کسی جج کی تقرری عدلیہ سے ہوئی ہو یا وکالت سے، ہر صورت میں اسے سالانہ کم از کم 13.65 لاکھ روپے پنشن ملنی چاہیے۔یہ فیصلے عدالتی نظام کو زیادہ منصفانہ اور موثر بنانے کی جانب ایک اہم قدم سمجھے جا رہے ہیں، جس سے نہ صرف معیار میں بہتری آئے گی بلکہ عدلیہ میں تجربہ کار اور سنجیدہ امیدواروں کو آگے آنے کا موقع بھی ملے گا۔