ہلال بخاری
اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور غور کریں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بچے اور نوجوان آج کل کے زمانے میں اس قدر خوش اور مطمئن نہیں ہیں جس قدر کچھ سال پہلے ہم ہوا کرتے تھے۔ ان کے ذہن مختلف طرح کی آلائش سے اس طرح آلودہ ہوئے ہیں کہ اس کا احساس ہوکر ہم کو وہ جگہیں یاد آتی ہیں جن کو لوگوں نے اپنی کم علمی اوربے پرواہی سے کچرا اور گندگی ڈال کر بدصورت، بدبودار اور قابل نفرت بنا دیا ہے۔
ہمارے کچھ نوجوانوں کے یہ آلودہ ذہن اب پورے سماج میں اپنی بدبو پھیلا رہے ہیں۔اس آلودگی کی ایک اہم وجہ انکا ذہنی تناؤ ہے۔ اس ذہنی تناؤ کی وجہ سے کچھ نوجوان منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن ان منشیات کا استعمال ان ذہنوں کو ایک اندھے کنویں میں دھکیل دیتا ہے جس سے وہ پھر کبھی نہیں نکل پاتے ہیں۔
آج کل کی زندگی میں انسانوں کے سامنے بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوئے ہیں جن سے روز بہ روز ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہماری نوجوان اور نونہال نسل خاص طور پر ذہنی تناؤ کے بوجھ سے بہت حد تک اثر انداز دکھائی دیتی ہے۔ بچے اپنے اردگرد کے تناؤ بھرے اور شفقت اور محبت سے عاری ماحول میں رہنے سے اپنے ننھے ذہنوں میں بڑھتا ہوا دباؤ محسوس کررہے ہیں جسکو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
نو عمری میں ذہنی صحت اور حفظان صحت کا خیال رکھنا ہمارے اس دور میں بہت اہم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک ایسا ماحول تیار کریں جس میں ہمدردی اور رواداری کے ذریعے ہم ہر ایک مبتلا ذہن کو تناؤ اور کشیدگی سے آزاد کرکے اس کی بہتر صحت اور تندرستی یقینی بنانے کے کوشش کریں۔
اگرچہ ذہنی تناؤ کوئی جدید مسئلہ نہیں اور ہر عمر اور ہر وقت میں لوگ اس سے اثر انداز ہوئے ہیں لیکن آج کل کے دور میں اس میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کچھ ماہرین کی یہ رائے ہے کہ سکون کی قلت کی وجہ سے لوگوں کو اب ذیادہ تناؤ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سکون کی کمی صرف اسی دور کا مسئلہ ہے۔ سکون کی قلت سے زیادہ اس دور میں صبر کا قحط دیکھنے کو ملتا ہے۔ بے سکونی کے دور میں صبر ایک کارآمد محافظ کی طرح ہماری مدد کرتا ہے۔ لیکن جب ہم صبر کرنے کا فن ہی کھودیں تو بے سکونی اور تناؤ ملکر ہمارا جینا دشوار کر دیتے ہیں۔
ہمارے ننھے ذہنوں کی ذہنی صحت اور حفظان صحت کی طرف ہماری توجہ مرکوز ہونے کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ ہم ان کو اپنی زندگی بھر پور اور مسرت سے جینے کا ہر موقع فراہم کریں۔ اس سماج کے بالغ اور ذی شعور افراد کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو ہر طرح کی ذہنی کشمکش میں بہتر سے بہتر رہنمائی فراہم کریں۔
ہمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کی تربیت اس انداز سے کرنی مطلوب ہے کہ وہ اس سماج کے ساتھ گھلنے ملنے میں ناکام نظر نہ آئیں۔ ان کو اس طرح کی تربیت کی ضرورت ہے جو انکو انتہاپسندی اور شورش پسندی سے آزاد کرکے انکو امن اور آشتی سے زندگی کے خوبصورت لمحے گزارنے میں مدد کرے۔
نوجوان نسل کو محبت، شفقت اور ہمدردی سے آشنا کرنا عمر رسیدہ اشخاص کا بنیادی فرض ہے جس سے وہ کسی بھی صورت میں دست بردار نہیں ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو امن اور اسکی رحمتوں سے آگاہ کرنے میں ہمیشہ پہل کریں تاکہ ان کے ذہن ہمیشہ تناؤ اور کرب سے کوسوں دور رہ کر سکون اور اطمینان سے ترقی کرتے رہیں۔
ہمیںسمجھ لینا چاہیے کہ آج کے زمانے میں خاص طور پر نو عمری میں ذہنی صحت کی طرف توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔ قوموں کی بقاء اور خوشحالی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ ہمارے نوجوانوں اور کمسن بچے ہر طرح کے ذہنی دباؤ، تناؤ اور آلودگی سے پاک رہیں۔
پتہ۔ہردوشورہ کنزر،ٹنگمرگ کشمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔