سرینگر//پولیس نے نوگام کے شہری کے پراسرارقتل کا معاملہ حل کرتے ہوئے اُس کی اہلیہ اورایک مولوی کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ہے ۔پولیس کے مطابق 10مارچ 2018کو خواجہ پورہ نوگام کے رہنے والے آبرو شفیع بٹ کو اُس کی اہلیہ اور ایک مولوی نے قتل کیا ۔ آبرو کی بیوی آصفہ دختر محمد عبداللہ ڈار ساکن آلوچی باغ سرینگر نے 11مارچ کو اپنے دیور، جو کہ پاس میں ہی رہتا تھا ،کو فون کر کے بتایا ’’ آپ کا بھائی جان نیند سے نہیں اٹھ رہا ہے‘‘۔آصفہ نے اپنے گھر والوں کے علاوہ اپنے سسر کو بھی فون کر کے بلایا ۔قتل کی رات دونوں میاں بیوی اور اُن کی 7سالہ بچی الگ الگ ٹھہرے تھے۔آصفہ نے اپنی بیٹی کو آلوچی باغ اپنے والدین کے یہاں بھیجا تھا ۔جس کے بعد اہل خانہ نے آبرو شیخ کو دفنا دیا کیونکہ انہیں لگا تھا کہ اُس کی موت قدرتی طور پر ہوئی ہے اور بہت سارے لوگوں نے اس کی موت کو حرکت قلب بند ہونے کا نتیجہ بتایا تھا ۔مگر آبرو شیخ کو دل کی کوئی بیماری نہیں تھی ۔ نہ تو ڈاکٹر کو بلایا گیا نہ ہی آبرو کو ہسپتال لیجایا گیا ۔آبرو کی موت پر تعزیت کیلئے آنے والے رشتہ داروں نے تعزیت پرسی کے دوران سوالات اٹھانے شروع کر دیئے کہ اُس کی اچانک اور بے وقت موت کیسے ہوئی ۔ آصفہ سے اُس کے وٹس اپ اور فیس بک کے بارے میں پوچھا گیا جو مقتول کے فون سے غائب تھے جبکہ چند گھنٹے قبل ہی آبرو شیخ نے اپنے دوست کو وٹس اپ پر مسیج بھیجا تھا ۔آصفہ کے ایک چاچا نے پوچھا بھی کہ تمہیں یہ احساس ایک لمحہ بھر کیلئے بھی نہیں ہوا کہ تم ایک مردہ کے ساتھ سو رہی ہو ۔مقتول کے والد نے بتایا کہ چاچا کے سوالات سے آصفہ کو غصہ آیا اور اُس نے اپنی ماں سے کہا کہ انہیں دوبارہ یہاں نہ آنے دیا جائے جبکہ اس کے علاوہ اور بھی شبہات تھے جس کی وجہ سے آصفہ شک کے دائرے میں آگئی ۔آصفہ کی شادی آبرو سے 12سال قبل ہوئی تھی اور شادی سے قبل کئی سال پہلے ان کی دوستی تھی ۔دونوں نے گھر والوں کی مخالفت کے بعد بھی شادی کی تھی ۔گھر والوں کو اُس وقت مولوی تنویر بٹ ولد علیٰ محمد بٹ ساکن للہار پلوامہ پر شک ہوا جب وہ آبرو کی موت کے تیسرے دن وہاں آیا اور تعزیت کرنے والوں سے خطاب کیا ۔اہل خانہ کے مطابق مولوی پھر خواتین کے خیمہ میں آبرو کی بیوہ اور ماں کو دلاسہ دینے کیلئے پہنچا اور وہاں دونوں کو گلے لگایا ۔آبرو کے اہل خانہ کو شک ہوا اور انہوں نے آصفہ کے ماں باپ بھائی بہن اور قریبی رشتہ داروں کو بلایا اور انہیں آبرو کے رویہ کے متعلق بتایا ۔سسرال والوں نے آبرو کی بیوہ کو اُس کی جائیداد کا حصہ بھی دیا جو 5لاکھ روپے بنتے تھے ۔
پولیس تحقیقات
ایس ڈی پی او پانتہ چھوک اور ایس پی سٹی ویسٹ کی نگرانی میں ایس ایچ او نوگام شوکت احمد شاہ نے اس قتل کے حوالے سے تحقیقات کرکے ملزمان کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا
پولیس نے آبرو کے والد محمد شفیع بٹ کی شکایت پر دفعہ 174آر پی سی کے تحت کیس درج کر کے تحقیقات شروع کی ۔پولیس کے مطابق آبرو کے اہل خانہ نے ضلع ترقیاتی کمشنر سرینگر سے آبرو کی لاش قبر سے باہر نکالنے کیلئے اجازت حاصل کی اور 26مئی کو ماہرین کی موجودگی میں قبر کشائی کر کے آبرو شیخ کی لاش کو باہر نکالا گیا اور لازمی ٹیسٹ کرائے گئے۔ اگرچہ ٹیسٹوں کی رپورٹ آنا باقی ہے۔ مگر ابتدائی تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہو رہی تھی کہ اُس کی موت گلہ گھونٹ دینے سے ہوئی ہے ۔پولیس نے اس ضمن میں ایف آئی آر نمبر 52/2008زیر دفعہ 302کے تحت پولیس سٹیشن نوگام میں کیس درج کیا ۔پولیس نے مولوی تنویر کو تفتیش کیلئے بلایا اگرچہ مولوی نے پہلے ہر ایک چیز سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور مولوی کی جانب سے استعمال کئے جانے والے موبائل فون سے بھی کوئی خاطر خواہ ثبوت برآمد نہیں ہوئے اور نہ ہی آصفہ کے ہی موبائل فون سے کوئی سراغ ملا ۔مگر آبرو نے قتل ہونے سے چند دن قبل اپنے ایک رشتہ دار کو ایک فون نمبر دیکر اُس کی تفصیل حاصل کرنے کیلئے کہا تھا،جوکہ آبرو کے رشتہ دار نے پولیس کو دیا اور یہ نمبر مولوی تنویر کا نکلا ۔پولیس نے بتایا کہ تحقیقات میں پتہ چلا کہ آصفہ پلوامہ کے رہنے والے سہیل نامی نوجوان کا سم کارڈ استعمال کر رہی تھی جس کے ذریعے وہ اپنے گھر والوں سے بات کرتی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ قتل کے فوراًً بعد مولوی فرار ہو گیا تھا اور اپنے موبائل کے سم بھی اُس نے تبدیل کئے تھے ۔پولیس نے بتایا کہ مولوی نے نیا سم نوگام کے ایک شہری کے نام سے حاصل کیا تھا ۔آخر کار مولوی کو جب گرفتار کیا گیا تو اُس نے جرم قبول کیا ۔
قتل کی شازش کیسے بنائی گئی
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ آصفہ کو آبرو نے رنگے ہاتھوں مولوی کے ساتھ موبائیل فون پربات کرتے ہوئے پکڑا تھا جس کے بعد اُس نے وہ فون نمبر اپنے ایک رشتہ دار کو تفصیلات حاصل کرنے کیلئے دیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ آصفہ نے غصہ میں گھر چھوڑ دیا اور مولوی کو فون کیا۔ پولیس نے بتایا کہ دونوں نے آبرو کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے بچی کو نانیہال میں رکھا گیا ۔انہوں نے بتایا کہ قتل کی واردات10 مارچ کو رات کے 12بجے سے ساڑھے 12 بچے تک انجام دی گئی اور اس کیلئے آصفہ نے بے ہوش کرنے والی دوائیوں کو دودھ کے ساتھ اپنے خاوند کو پلا دی۔انہوں نے بتایا کہ مولوی دیوار پھاند کر گھر میں کھڑکی سے کمرے میں آیا جو آصفہ نے کھلی رکھی تھی اور جب آبرو گہری نیند میں تھا تو مولوی نے اُس کا گلہ گونٹ دیا ۔ مولوی صبح تک وہیں ٹھہرا رہا اور صبح ہوتے ہی نوگام ریلوے سٹیشن سے پلوامہ اپنے گھر پہنچ گیا ۔