سرینگر// انتخابی عمل کے نتائج آنے کے ساتھ ہی ’’نوٹا‘‘( فہرست کے اُوپر والوں میں سے کوئی بھی نہیں) نے7دیگر امیدواروں سے سبقت حاصل کرتے ہوئے تیسرے نمبر کی پوزیشن حاصل کی۔سرینگر پارلیمانی نشست میں ’’نوٹا‘‘ کے متبادل کو منتخب کرتے ہوئے925رائے دہندگان نے تمام9امیدوارں کو مسترد کیا۔ ضمنی انتخابات میں آزاد امیدوار فاروق احمد ڈار کے حق میں629جبکہ معراج خورشید کے حق میں576،لیبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار بکرم سنگھ کے حق میں497ووٹ پڑے۔ مرزا سجاد حسین بیگ کے حق میں198،اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کے امیدوار چیتن شرما کے حق میں197اور غلام حسن ڈار کے حق میں198ووٹوں کے علاوہ راشٹریہ سماج وادی پارٹی(سیکولر) کے امیدوار سجاد ریشی کے حق میں155ووٹ آئے۔ نوٹا کے حق میں مجموعی طور پر1.04شرح کے حساب سے ووٹ آئے۔ ’’نوٹا‘‘ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر امیدواروں کے فہرست میں سے نیچے ہوتا ہے جس پر سیاہ ضرب لگا ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سپریم کورٹ سے انتخابات کے دوران نوٹا کے آپشن کو استعمال کرنے کیلئے رجوع کیا جس کو اگر چہ حکومت کی حمایت حاصل نہیں تھی تاہم18ستمبر2015کو اس آپشن کو انتخابات کے دوران متعارف کیا گیا۔ اس آپشن کے ذریعے ووٹر کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ انتخابات میں کھڑے کسی بھی میدوار کو مسترد کریں۔فی الوقت نوٹا کا آپشن یونان،امریکہ ریاست نویڈا،یوکرین،سپین،کولمبیا کے علاوہ دیگر ملکوں میں بھی رائج ہے۔روس میں2006تک’’ نوٹا‘‘ کا استعمال کیا جاتا تھا تاہم بعد میںاس کوہٹایا گیا جبکہ پاکستان میں اس آپشن کو2013میں متعارف کیا گیا تاہم بعد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کو مسترد کیا۔ بنگلہ دیش اور بلغاریہ میں بھی اس آپشن کو حال میں شامل کیا گیا ہے۔