ن
و
ن
ہ
ا
ل
ا
ن
ک
ا
ش
م
ے
ر
ک
ے
ن
ا
م
نہ ہوتا موجدِ عالم تو ہوتے ہم کہاں بچّو
وہ واحد ہے، نہیں اُس کا شریکِ شکل کوئی بھی
نفاست اُس کی بالا ہے بلند اس کی خیالی ہے
ہُوا اُس کے بدولت ہے ظہورِ دو جہاں۔ مانو!
ازل سے تا ابد اس کی عنایت ہم پہ ہے جاری
مزہ آتا جو جیتے جی اسے گر دیکھ لیتے ہم
سکون و امن اور راحت پلٹ کر آپ آتی پھر
نگہ میں اس کی رہتی ہے جہانوں کی جہاں بانی
کوئی جب کِشت کشیپ کی جہاں میں بات کرتا ہے
اُبھرتا اس کی آنکھوں میں یہی کشمیر ہے یکتا
شباہت شان و شوکت اور شہرت دیکھ کر اس کی
مرا دامن یقینا یوں بہ قدرِ شوق بھر جائے
یہ جنت میرے بچّو کیوں ہمیں از خود کھٹکتی ہے
ربابِ زیست کی تانیں یہاں مغموم ہیں کیونکر
کہا کرتی فضائیں اب جہاں کے دوربینوں سے
یہ کس تعزیر کی پاداش میں امروز خستہ ہے
نحوست آتی جاتی ہے بدوشِ ناتواں اکثر
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ذرا پھر قصد کر لو تم
مبارک! صد مبارک! ہو تمہیں کشمیر پھر اپنا
کوئی اپنا تو خالق ہے، ہیں جس کے ہم نِشاں بچّو
نہ طاقت ہی جو کر سکتا ہے اُس کی نقل کوئی
جہانِ زیست کا واحد وہی تو ایک والی ہے
زمیں اس کے تسلط میں ہے مہرِ آسماں۔ مانو!
یہ سانسیں جو ملیں ہم کو عنایت اس کی ہیں ساری
اسے پھر پوچھتے جی بھر اسی سے سیکھ لیتے ہم
فریبِ زیست کا صدمہ نہیں دنیا اُٹھاتی پھر
زمیں تا آسماں کرتا ہے وہ سب کی نگہبانی
یہ سمجھو باغِ جنت کی وہ ہم سے بات کرتا ہے
جہاں فردوس کے انگور، جہاں پر سیب ہے پکتا
قلمکاروں نے کی اب تک بہت توصیف ہے اس کی
بھٹکتی سوچ ہے لیکن کوئی فتنہ نہ کر جائے
اسی میں روحِ حبہؔ کیوں کبھی مہجور بھٹکتی ہے
ہیں بھٹکے عصرِ نو میں یاں اماں معصوم ہیں کیونکر
یہاں کیوں آپ ڈرتے ہیں ابھی اپنے مکینوں سے
یہی کہتی ہے نسلِ تو یہاں اب جستہ جستہ ہے
کِیا کرتی ہے یہ پیدا بہتِ دردِ زماں اکثر
بدل دو اپنی سوچیں اور وطن کو پھر سے بدلو تم
تصور دورِ بڈشاہؔ کا، کہیں کشمیر پھر اپنا
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ ـ: 9697524469