نومبر تعلیمی سیشن کی جزوی بحالی

Mir Ajaz
6 Min Read

لوگوں کی شناخت کا احترام نہ کیا گیا تو سب کچھ بے معنی

سرینگر//لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی زیرقیادت انتظامیہ کی ’یکساں تعلیمی پالیسی‘ کو تبدیل کرتے ہوئے، جموں و کشمیر حکومت نے بدھ کو کشمیر کے سکولوں کے لیے 9ویں جماعت تک تعلیمی سیشن بحال کرنیکا فیصلہ کیا۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس سلسلے میں امتحانی کیلنڈر کو نومبر-دسمبر میں دوبارہ شیڈول کرنے کا اعلان کیا۔ایک تقریب کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نویں جماعت تک کے امتحانات اس سال نومبر میں ہوں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دسویں اور بارہویں کے امتحانات اگلے سال مارچ اپریل میں ہوں گی۔عمر کے مطابق کہا، “نومبر-دسمبر میں اگلے سال سے بھی 10ویں اور 12ویں امتحانات منعقد کرنے کے لیے نظر ثانی کی جائے گی۔”لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت میں انتظامیہ نے 2022 میں یکساں تعلیمی کیلنڈر کا اعلان کیا تھا جو ملک کے باقی حصوں کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا۔تاہم یہ فیصلہ طلبا اور والدین کے ساتھ اچھا نہیں ہوا جو ایل جی انتظامیہ سے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ منتخب حکومت کے آنے کے فورا ًبعد، طلبا، والدین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پرانے نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔سٹیک ہولڈرز یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ نومبر تا دسمبر سیشن طلبا کو نئے تعلیمی سیشن کے آغاز کے ساتھ فروری تک تین ماہ کی موسم سرما کی چھٹیوں کیلئے تیاری اور انہیں مقابلے کے لیے مزید وقت دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بصورت دیگر یہ تین ماہ خسارے میں جائیں گے اور طلبہ کے لیے کوئی مقصد پورا نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ سخت اور نرم علاقوں کی وجہ سے طلبا کو کافی الجھنیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور مارچ کے مہینے میں برفباری ہونے کی صورت میں انہیں غیر یقینی صورتحال کا سامنا تھا۔ادھروزیر تعلیم سکینہ یتو نے کہا کہ تعلیمی سیشن اس سال سے نومبر تا دسمبر 9ویں جماعت تک بحال کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا”ابھی کیلئے، ہم نومبر-دسمبر کے تعلیمی سیشن کو 9ویں تک بحال کریں گے، دسویں سے بارہویں کے طلبا کے لیے اگلے سال سے تعلیمی سیشن بحال کر دیا جائے گا۔جموں و کشمیر انتظامیہ نے 2022 میں لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت میں جموں اور کشمیر دونوں ڈویژنوں کے لیے “محکمہ اعلی تعلیم اور باقی ملک کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ” “یکساں تعلیمی کیلنڈر” کے نفاذ کے احکامات جاری کیے تھے۔
سب کچھ بے معنی
عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ اگر جموں و کشمیر کے لوگوں کی شناخت کا احترام نہیں کیا جائے گا تو سب کچھ بے معنی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی زیر قیادت حکومت جموں و کشمیر کی گمشدہ شناخت کے لیے لڑے گی جو 5 اگست 2019 سے پہلے حاصل تھی۔ایس کے آئی سی سی میں منعقدہ سول سوسائٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ میں ماضی میں بھی جموں و کشمیر کا وزیر اعلیٰ رہ چکا ہوں، لیکن آج صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگ پچھلے کچھ سالوں سے اپنے حقوق سے محروم ہیں، اور موجودہ حکومت ان کی بحالی کے لیے جدوجہد کرے گی۔عمر عبداللہ نے سوال کیا کہ کیا جموں و کشمیر کے لوگوں کو ہراساں کرنا ہے؟ کیا انہیں اپنی سرزمین پر باوقار زندگی گزارنے کا حق نہیں؟۔انہوں نے کہا کہ بجلی، سڑک، پانی اور روزگار کو کسی نہ کسی طرح حل کیا جائے گا، لیکن اگر جموں و کشمیر کے لوگوں کی شناخت کا احترام نہیں کیا جائے گا، تو سب کچھ بے معنی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی قیادت والی حکومت جموں و کشمیر کی کھوئی ہوئی شناخت کے لیے لڑے گی۔انہوں نے کہا”ہمارا اپنی زمین اور وسائل پر حق ہے، اگر ہماری شناخت کا احترام کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ملک میں عزت دی جا رہی ہے‘‘۔عمر نے مزید کہاکہ حکومت اپنے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے، اور معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ باقاعدہ ملاقاتیں کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور عوامی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ایک سال میں کم از کم دو میٹنگز ہونی چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ یہ حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے ہے، اور ہمیں امید ہے کہ یو ٹی گورننس کا نظام جلد ہی ختم ہو جائے گا۔عمر عبداللہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چھ سالوں سے جموں و کشمیر میں کوئی جمہوری نظام نہیں تھا۔ جمہوری نظام کا مقصد حکومت کے ساتھ عوام کا رشتہ مضبوط کرنا ہے۔ حکومت اس پر سختی سے زور دے گی،ہمیں امید ہے کہ UT گورننس کا موجودہ ماڈل جلد ہی ختم ہو جائے گا۔

Share This Article