Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
اداریہ

نوزائیدہ بچے کو زندہ دفنانے کا المیہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: January 5, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
9 Min Read
SHARE
 کشمیر کی عصری تاریخ میں چشم ِفلک نے غالباً پہلی بار یہ کر یہہ الصورت منظر دیکھا ہوگا کہ کوئی باپ اپنے نوزائیدہ بچے کو زندہ زمین میں گاڑنے کی نامراد کوشش کر بیٹھا ۔ اسی ہفتے جنوبی کشمیر کے قصبہ شوپیان کے رہنے والے ایک شخص نے اپنی اولادِ نرینہ کو زمین برد کر نے کے لئے سنگ دلی اور بے رحمی کی انتہا کر تے ہوئے شہر خاص میں اسے زندہ دفن کر نے کی ایک بڑی جسارت کی ۔ یہ بچہ ابھی دنیا میں آنکھ ہی کھول رہاتھا کہ اسے اپنے ہی باپ کے ہاتھوں ایک ناگہانی مصیبت سے واسطہ پڑا ۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ ایک باپ نے اپنے ہی خون کے خلاف یہ وحشیانہ اقدام کر نا چاہا؟ اس سوال کا جواب ایک درد انگیز کہانی کے گرد گھومتا ہے ۔ کہانی کا مرکزی نکتہ کم نصیب باپ کی غربت وناداری ہے۔اسی ایک تلخ حقیقت کے سامنے ہتھیار ڈال کر غریب باپ نے معصوم فرشتے کی جان لینا چاہی لیکن اللہ کا کر نا کچھ اور تھا کہ لوگوں نے شخص مذکورہ کو بروقت پکڑ کر نوہٹہ پولیس تھانے کے حوالے کردیا ۔ تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ ملزم کے پاس اپنی اولاد کے دوا دارو اور علاج ومعالجہ کے لئے پیسہ نہیں تھا، بنا بریں مایوس باپ کو اپنا نوزائیدہ بیٹا موت کے حوالے کر نے کا سفاکانہ اقدام سوجھا۔ مقامِ شکر ہے کہ ظلم وبربریت کی یہ داستان لوگوں کی بروقت مداخلت سے اپنے اختتام کو پہنچی ور نہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا یہ سانحہ کشمیری قوم کے خلاف مزید قہر الٰہی کا سبب بن جانا یقینی تھا ۔ اس سنسنی خیز نے صرف کشمیر کے باضمیر لوگوں کو ہی نہ چونکا دیا بلکہ محکمہ سماجی بہبود کے شعبہ ٔ اطفال بھی حرکت میں آگیا اوراس ننھے فرشتے کو فوری طور گود لیا ۔ مذکوہ سرکاری محکمہ نے بچے کودوادارو فراہم کر نے کا خوش کن اعلان کر کے ایک زندگی کو بچانے کا فریضہ انجام دیا۔ اس واقعہ کو محض ایک خبر کے طورنہیں لیا جاناچاہیے بلکہ اس کے پیچھے ہمارے ا نفرادی اخلاقی بگاڑ اورا جتماعی بے حسی کا ایک بہت بڑا نم ناک ا فسانہ چھپا ہو اہے ۔ کشمیر میں خون ریزی کا لرزہ خیز سلسلہ اب انتیسویں سال میں داخل ہوچکاہے ۔اس لمبے عرصہ میں تقریباً ہم سب کے اندر نادانستہ طور اذیت پسندی کی نفسیات گھر کر تی رہی ہے ۔ نتیجہ یہ کہ ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی ، خیر خواہی اور خبر گیری کی قدریں دن بہ دن کمزور پڑرہی ہیں ، انسانیت مر رہی ہے ، آدمیت زندہ درگورہورہی ہے، آپا دھاپی اور نفسانفسی کاعالم عروج پر ہے۔ نامساعد حالات کے اس طویل دورانیے میں ہم نے مسلسل لاشیں گرتی دیکھیں ، جنازے اٹھتے پائے ، ہجوم در ہجوم زخمیوں سے ہمیں پالا پڑا، بستیاں بر باد اور بازار اُجڑتے دیکھے۔ ان قیامت خیز مناظر کے تواتر سے بہ حیثیت مجموعی ہم زندگی کی معنویت سے تہی دامن ہو کر رہ گئے ہیں اور اُن انسانی جذبات سے بھی بتدریج ہاتھ دھوتے چلے گئے ہیں جن کی بدولت ہمیں دنیا بھر میں قابل ِ رشک قوم جانا جاتا تھا ۔ بایں ہمہ بڑی ناسپاسی ہوگی اگر یہ نہ کہا جائے کہ وادی میں ناگفتہ بہ حالات کے چلنجوں کو قبول کر کے جہاں انفرادی سطح پر بعضوں نے خیرات وصدقات بانٹنے والا ہاتھ کھلا رکھا ، وہاں عوامی سطح پر یتیم خانے کھولے گئے ، خیراتی اداروں کی بھرما رکی گئی ، فلاحی انجمنوں کی قطاریں لگ گئیں، غریب مریضوں کے واسطے رعایتی نرخوں پر علاج و معالجہ کے لئے رضاکار تنظیمیں معرض ِ وجود میں آ گئیں ، مفلس ونادار لوگوں کی مالی امداد وغیرہ کے لئے کئی ٹرسٹ بنے ، ساتھ ہی ساتھ ایک مسلم وقف بورڈ کو چھوڑ کر کئی سرکردہ دینی تنظیموں نے انسانیت کے محاذ پر حتی ا لمقدور کام کر نے کے لئے ذیلی امدادی شعبے قائم کئے ۔ ان تمام سطحوں پر جو بھی کام ہوا اُس کا اعتراف نہ کر نا بخل اور ذہنی افلاس پر محمول ہو گا لیکن ہاں، جس پیمانے پر حالات کے عام متاثرین، مریضوں ، ناداروں ، معذروں، یتیموںاور بیواؤں کے واسطے مالی معاونتیں اوراجناس کی صورت میںا مداد یں مطلوب ہیں ،اس کا عشر عشیر بھی متعلقین کو میسرنہیں ہوتا۔ لہٰذا ایک غریب باپ کا اپنے نوزائیدہ بچے کو شہر خاص میں زندہ دفن کر نے کا دردناک واقعہ بھی کلی طور اسی مایوس کن حقیقت کا برملا اظہار سمجھا جانا چا ہیے ۔ اگر یہ تند وتلخ بات نہ ہوتی تو اس باپ کو دل ہی دل یہ اطمینان دلاسہ دیتا کہ میری بیمار اولاد کی تکلیف مجھ پر کوئی بار گراں نہیں، اس کے علاج ومعالجہ کے لئے میرے رشتہ دار اور دوست احباب میرا سہارا بنیں گے، سماج اس خدائی تحفے کی عافیت کوشی کے لئے پیش پیش ر ہے گا، ادارے اور انجمنیں میرے اوپر قدرت کی طرف سے ڈالے گئے بوجھ کو ہلکا کر نے کے لئے متحرک ہوں گی ، دردِ دل رکھنے والے مجھے کبھی سرراہ نہ چھوڑیں گے۔ اس مثبت سوچ کے ساتھ وہ خواب وخیال میں بھی اپنے ہی بچے کو ٹھکانہ لگانے کے لئے قاتلانہ حرکت پر نہ اُتر آتا۔ اس لئے یہ گناہ گارانہ حر کت اس باپ کی بے ضمیری اور مایوسی کی انتہا ہی سہی مگر یہ انسانیت کو درپیش مسائل کے تئیں ہماری سماجی بے حسی کی آئینہ دار بھی ہے ۔ا ن معنوں میں یہ معاملہ پورے سماج کے خلاف ضمیر کی عدالت میںایک مایوس باپ اور ایک بے دست وپا بچے کی طرف سے ایف آئی آر کااندارج ہے ۔یہ بات بھی ہم پر واضح ہونی چاہیے کہ اگر بالفرض یہ واقعہ مغرب ومشرق میں کہیں اورپیش آیا ہوتا تو وہاں لوگ اس خبر کو ایک عام خبر کی طرح نہیں لیتے بلکہ اسے فوراًسے پیش تر امدادی کام کر نے کے حوالے سے فرداًفرداً ایک اہم پیغام سمجھتے اور سب مل کر ایسے قنوطیت زدہ باپ کی ہر ممکن امداد کے لئے دل کے خزانے کھول دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے، خیراتی ادارے دوڑ میں لگ جاتے کہ یہ سعادت ہمیں ملے کہ نوزائیدہ بچے کی کفالت کا ذمہ لیں ، فلاحی تنظیمیں متحرک ہوجاتیں، وغیرہ و غیرہ تاکہ ایک بچے کی جان بچائی جاسکے۔ یہاں بھی ممکنہ طور زیر بحث واقعہ سے انہی صحت مند خطوط پر انفرادی طور کام کرنے کی توفیق کسی کسی کو ضرور مل گئی ہوگی لیکن اجتماعی طور شاید ہم بھول گئے ہیں کہ اسلام اپنے پیروکاروںکو اول تاآخر انسانیت اور خیرخواہی کا مر کب دیکھنا چاہتا ہے اور نیک کاموں میں ہاتھ بٹانے کو ایمان کا جزولاینفک بتاتا ہے ۔ اگر یہ دین ماننے والے کشمیر میں اکثر یت میںرہ بس رہے ہیں تو شوپیان کے رہنے والے غریب باپ کے لئے ٹھٹھرتی سردی میں اپنا بچہ سری نگر میں زندہ دفنانے کی نوبت کیوں آتی؟اس سوال کو اپنے کردار کا آئینہ بناکر ہمیں یہ طے کر نا ہوگا کہ آیا ہم سماجی سطح پر دین دُکھیوں اور محتاجوں کے کام آنے میں خفیہ طور اور اعلانیہ اپنا دستِ تعاون پیش کرتے ہیں یا نہیں ؟ 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

وزیر اعظم نے آج 51 ہزار سے زائد نوجوانوں کو تقرری نامہ دیا
برصغیر
ہندوارہ پولیس کی سائبر فراڈ کے خلاف بڑی کامیابی، 28 لاکھ روپے کی رقم بازیاب
تازہ ترین
گاندربل میں تین مطلوب دہشت گردوں کی کروڑوں کی جائیدادیں ضبط
تازہ ترین
ضلع پولیس پونچھ نے لاپتہ شخص کو برآمد کر کےاُس کے اہل خانہ سے ملایا
پیر پنچال

Related

اداریہ

! ماحولیاتی تباہی کی انتہا

July 11, 2025
اداریہ

زرعی اراضی کا سکڑائوخطرے کی گھنٹی !

July 10, 2025
اداریہ

! ہماراقلم اور ہماری زبان

July 9, 2025
اداریہ

کشمیر میں ایمز کی تکمیل کب ہوگی؟

July 9, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?