وادی مینو نظیر یعنی کشمیر بالخصوص اس کے گرمائی دار الخلافہ اور قدیمی تہذیب و تمدن کے گہوارے سرینگر کا کون سا شخص ہوگا جو کہ غلام محمد و نور محمد تاجران کتب مہاراج گنج کے نام سے واقف نہیں ہوگا۔ اس اشاعتی ادارے کے بانی مرحوم غلام محمد اور ان کے بیٹے مرحوم نور محمد تھے۔ یہ ان ایام کی بات ہے کہ جب یہاں بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں کسی قسم کا چھاپ خانہ نہیں تھا۔ مرحوم نور محمد کو فیاض اَزل نے نوازا تھا اور ان کے دل میں ابتداء سے ہی نوشت وخواند کے ساتھ ساتھ کتابی ذوق بھی عطا فرمایا تھا۔ انہوں نے اپنے والدِ محترم غلام محمد کے دوش بدوش اشاعتی ادارہ میں ساتھ نبھایا اور کتابوں کی تجارت شروع کر کے اس کو وسعت بخشی کشمیر میں اگرچہ کچھ چھاپ خانے تھے بھی، مگر ان کی شہرت کچھ زیادہ نہیں تھی۔مرحوم نور محمد لکھنو کے نول کشور چھاپ خانے کے علاوہ دہلی اور لاہور سے بھی کتابیں چھپوا کر لاتے تھے۔ آپ نے اپنی مادری زبان کی بہت خدمت کی اور اس میں قدیم شعراء کشمیر کے قلمی نسخے چھپوائیے۔ دیہاتوں او رشہر کے بیشتر علاقوں میں شعراء کرام کا کلام جمع کر کر کے اس کو کتابی شکل میں محفوظ کیا اور آنے والی نسلوں کے لیے علم و ادب کی خوب آبیاری کی۔ مرحوم نور محمد صاحب کی خدمات کو یاد کر کے اور اس محسن قوم کی علمی وادبی سرگرمیوں کے پیش نظر ان کے لائق و فائق فرزند ارجمند ظفر محمد اقبال نے کتاب نور محمد (آزاد) شائع کر کے اپنے والد کا حقیقی جانشین ہونے کا حق ادا کیا ۔ کتاب کی رسم رونمائی کے لیے جموں و کشمیر اکیڈمی سرینگر میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی تھی۔ کتاب ۱۱۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا ٹائٹل کور بہت ہی خوبصورت اور جاذبِ نظر ہے۔ اس پر ایک کھلی ہوئی کتاب کے اوراق کھول کر دکھائے گئے ہیں جو کہ علم و ادب کی ایک بہترین علامت تصور کی جاسکتی ہے۔ اگر کچھ دہائیاں قبل جموں و کشمیر کلچرل اکیڈمی نے بھی مرحوم نور محمد کی یاد میں اپنے شیرازہ کی ایک یادگاری نمبر شائع کیا تھا مگر مرحوم کی یاد میں آج کی یہ کتاب بہت ساری خصوصیت کی حامل ہے۔ ادیبوں اور قلمکاروں کے مضامین کے علاوہ کتاب میں مرحوم نور محمد کی علمی اور ادبی زندگی سے متعلق بہت ساری خوبصورت اور دیدہ زیب تصویریں نظر آتی ہیں۔ اگرچہ اُس زمانے میں آج کے ترقی یافتہ دور کی مانند رنگین تصویروں کا رواج نہیں تھامگر پھر بھی سیاہ و سفید رنگ کی یہ تصویریں ہمیں ماضی کی طرف لے جاتی ہیں۔ محترم ظفر محمد اقبال ناشر کتاب نے کتاب کے آخری صفحات میں اپنے والد مرحوم کے زمانے کی شائع شدہ کتابوں کے ٹائٹل صفحات کے عنوان جلی حروف میں شامل کر کے کتاب کے حسن اور آرائش کو زینت بخشی ہے۔ مثلاً گلشن نعت کلان۔ کاشئر ہارہ باگے۔ گریہ وحوش قصۂ ممتاز بے نظر خنجر عشق کشمیری اعتقاد نامہ وغیرہ۔اکیس عنوانات کے تحت کتاب میں وادی کے سرکردہ ادیبوں اور دانشوروں کے مضامین شامل ہیں۔ اگر چہ کچھ مضامین کلچر اکیڈمی والے نور محمد نمبر شیرازہ سے بھی نقل کئے گئے ہیں مگر یہ سبھی مضامین قند مکرر کی حیثیت رکھتے ہیں اور بار بار پڑھنے کے لائق ہیں۔ابتدائی مضمون نور محمد تاجر کتب کا مختصر تعارف ہے جو کہ جناب ظفر محمد اقبال کا قلم بند کیا ہواہے۔ اس میں موصوف نے اپنے والد کی زندگی کا ایک خاکہ پیش کیا ہے۔ سال پیدائش سے سال وفات تک کے واقعات مختصراً تحریر کئے گئے ہیں۔وادی کے سرکردہ ادیب شاعر اور گیان پیٹھ انعام یافتہ جناب رحمان راہیؔ کا مضمون بعنوان نور محمد کوئی گیارہ صفحات پر بسیط ہے اور بہت ہی پر مغزر اور معلوماتی ہے۔ کشمیر زبان میں لکھے گئے اس مضمون کا اردو ترجمہ جان محمد آزاد نے کیا ہے۔ اس طرح چند مہینے قبل وفات یافتہ دانشور غلام نبی فراقؔ کا کشمیری زبان میں نور محمد سے متعلق مضمون بہت عمدہ ہے۔ مرحوم فراقؔ کے بقول انھوں نے نور محمد کے دکان پر عبد الاحد آزادؔ، غلام حسن بیگ عارفؔ، عبد الاحد زرگر اور دوسرے کئی غیر کشمیری اہل قلم کو دانشورانہ اور فلسفیانہ گفتگو کرتے ہوئے دیکھا ۔ مرحوم مرزا عارف بیگ کا مضمون بھی شامل کتاب ہے۔اس کے علاوہ دیگر اہل قلم مثلاً غلام نبی خیال، ظریف احمد ظریف، شوکت حسین کینگ، مرحوم غلام رسول کائوسہ، شاہد بڈگامی وغیرہ کے قلم سے مرحوم نور محمد پر لکھے گئے مضامین ان کی زندگی کے بہت سارے گوشوں کی نقاب کشائی کرتے ہیں۔محترم ظفر محمد اقبال کے مضمون بعنوان ’’اشاعت کار نور محمد کشمیر کا نول کشور ‘‘ میں موصوف نے ان شائع شدہ کتابوں کا ذکر کیا ہے جو نور محمد نے اپنی محنت شاقہ سے شائع کیںاور ان شخصیات کا بھی تذکرہ کیا ہے جو کہ بہ ذات خود مرحوم کے دکان واقع مہاراج گنج آیا کرتے تھے۔ ان میں چند قابل ذکر نام یوں ہیں۔ شیخ محمد عبد اللہ، چودھری غلام عباس، اللہ رکھا ساغر، حفیظ جالندھری، میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ، مولانا غلام رسول مہر، فیض پراچہ مبارک شاہ فطرت، محی الدین حاجنی، پیر عزیز حقانی۔ اس مضمون میں جناب ظفر اقبال نے اور بھی کئی باتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ الغرض نور محمد کی یاد میں یہ کتاب علم وادب کے شائقین کے لیے ایک گرانقدر تحفہ ہے۔اگرچہ مرحوم نور محمد کی علمی خدمات کے علاوہ موصوف تنگ دست شعراء اور قلم کاروں کی حتی المقدور مالی معاونت بھی کرتے تھے۔ علمی ذوق رکھنے والوں اور مطالعہ میں ماہر بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں قلم یادیگر تدریسی چیزیں بھی عنایت کرتے تھے۔ بقول ظفر محمد اقبال مرحوم کی دکان پر برصغیر کی تقسیم سے قبل لاہور سے کوئی عبد الوہاب ذکی بھی تشریف لاتے تھے جو کہ حضرت علامہ اقبال کے صحبت یافتہ تھے۔ وہ نور محمد کے پاس بیٹھ کر علامہ اقبال کی محفل میں ہوئے چشم دید واقعات سناتے ۔مرحوم نور محمد کی عظیم خدمات کے پیش نظر اب یہ اُن کے وارثان کا فرض منصبی بنتا ہے کہ وہ اس اشاعتی ادارے ’’غلام محمد نور محمد تاجران کتب مہارج گنج سرینگر‘‘ کی شان رفتہ کو بحال کرکے نور محمد کی روح کو تسکین بخشیں۔ آج کل یہ ادارہ سٹیشنری کی دکان تک محدود نظر آتا ہے۔ نور محمد مرحوم کے لیے بہترین خراج عقیدت یہ ہوگا اگر اس ادارے کا درخشندہ ماضی مستقبل کی قندیل بن کر علم وآگہی کی شاہراہ طے کر تا رہے ۔وما علینا الا البلاغ
موبائل 9419674210