رئیس احمد کمار
بر صغیر کے ادبی حلقوں میں جب بھی فکشن کے حوالے سے بات ہوتی ہے، تو نور شاہ کا نام زہن میں سب سے پہلے آتا ہے۔ یہ وہ نام ہے جو اپنی عمر رسیدگی میں بھی قلم کو توانا رکھتا ہے اور ذہن کو تازہ رکھنے کے لیے مطالعے کے ساتھ ساتھ افسانے، افسانچے اور دیگر تخلیقات مسلسل قارئین کی نظر کرتے ہیں۔ ان کی معروف تصنیف ’’کیسا ہے یہ جنون‘‘ میں کل گیارہ افسانے شامل کئے گئے ہیں اس کے علاوہ اس کتاب میں افسانچے، ریڑیائی ڈرامے، تراجم، فلمی فیچر اور سیلاب کی کہانیاں قارئین کی نظروں سے گزرتی ہیں۔ آج ہم اس تصنیف میں شامل افسانوں پر بات کریں گے۔ شہر سرینگر کے مشہور علاقے ڈلگیٹ میں جنم پانے والے اس بلند مرتبت ادیب نے افسانوں کے کئی مجموعے اردو ادب کے سپرد کئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی ناول بھی لکھے ہیں۔ زیر نظر تصنیف میں شامل افسانے انہوں نے پشکر ناتھ اور علی محمد لون کی نزر کئے ہیں۔ کیسا ہے یہ جنون، کتاب میں شامل پہلا افسانہ ہے جو چار صفحات پر محیط ہے۔ یہ افسانہ عامر جو بارہ برس کا لڑکا ہے، کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ اس کا باپ سچائی کی خاطر قربان ہوا ہے اور اسے جو عمر کھیلنے کودنے، ہنسنے ہنسانے اور گلی ڈنڈا کھیلنے کی تھی تلخیوں اور کڑواہٹ کے ساتھ گزارنی پڑی ہے۔ اس لئے اس کے زہن میں عجیب و غریب سوالات جنم لیتے ہیں جیسے میں کون ہوں؟ کس کا بیٹا ہوں اور میرے ابو کہاں ہے؟۔ سفر زندگی کا، یہ کتاب کا دوسرا افسانہ ہے۔ اس میں نمرتا اور سیما کے ریل سفر کا داستان بیان ہوا ہے۔ دونوں کی ریل گاڑی میں ہی ملاقات ہوتی ہے۔ سیما کا شوہر ایک پائلٹ تھا جو لداخ جاتے ہوئے نہ جانے کن گھاٹیوں میں گم ہوا تھا۔ اس کا ایک بیٹا سنجے تھا جو اب اس کی تمام کائنات تھی۔ امبالا پہنچتے ہی اس میں ایک عورت داخل ہوتی ہے جس کا ٹرنک گر کر سنجے پر گرتا ہے۔ آگے چل کر ریل گاڑی کا بھی حادثہ پیش آتا ہے اور سیما اس عورت کے بچے کو بچاتی ہے جس کا ٹرنک سنجے پر گر پڑا تھا۔ درندے، اس تصنیف میں شامل تیسرا افسانہ ہے۔ رومانوی کہانی کا رنگ دے کر اس افسانے کو خوبصورت اور دلکش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ دو دلوں کی کہانی بیان ہوئی ہے جو آپس میں محبت کرتے تھے، ایک ساتھ زندگی کے باقی ایام گزارنے کے لیے انہوں نے بے شمار قسمیں کھائی تھیں، محبت کے اقرار نامے پر مہریں بھی ثبت کردیں تھیں۔ مگر ایک روز جب مادوی اپنے دوست کو رسیو کرنے کی خاطر آئیرپورٹ جارہی تھی تو نامعلوم درندوں نے اسے اغوا کرکے اس کی آبروریزی کرکے لہولہان کیا تھا پھر زخمی اور برہنہ حالت میں ویران سڑک پر پھینک دیا تھا۔ کتاب میں شامل چوتھا افسانہ لکیر ہے جو دو صفحات پر محیط ہے۔ افسانہ، لکیر کے آر پار رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کا حال بیان کررہا ہے۔ لکیر کو پار کرکے جب ایک شخص تیس سال تک وہاں کی زندگی کا بغور جائزہ لیتا ہے اور واپس اپنے وطن لوٹتا ہے تو اسے حیرانی ہوتی ہے کہ دونوں اطراف کے لوگ ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ ایک جیسا ماحول، یکساں موسم، یکساں آب و ہوا، ایک جیسے پیڑ پودے، پھول اور یکساں لوگوں کا رہن سہن اور کلچر۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک جیسا جینا اور مرنا۔ مگر اس سب یکسانیت کے باوجود، درمیان میں ایک لکیر حائل ہے جو انہیں تقسیم کرتی ہے اور اپنی جگہ برابر کھڑی ہے۔ ساتھ ہے مہربان میرا، یہ کتاب میں شامل پانچواں افسانہ ہے۔ ایک خوبصورت عورت اپنے پتی کی جان بچانے کی خاطر ڈاکٹر صاحب کے پاس آتی ہے اور اسے اپنے ساتھ شدید بارشوں میں گھر تک لے آتی ہے۔ جب مریض کی حالت بہتر ہوجاتی ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ وہ کہاں ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسے اپنی بیوی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کہتا ہے مگر واپس اسے یہ جواب ملتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے اسے مرے ہوئے برابر پانچ سال ہوگئے ہیں۔ روشنی اور سائے، کتاب کا چھٹا اور بہت سندر اور خوبصورت افسانہ ہے۔ ہمارے سماج میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کی اصل عکاسی کی گئی ہے۔ عالیہ، خانم اور احمد کلیم کے گھر میں بطور نوکرانی کام کرتی تھی۔ خانم کو عالیہ پر مکمل بھروسہ تھا یہاں تک کہ وہ گھر کی تمام کھڑکیاں، دروازے، الماریاں وغیرہ کھلی چھوڑتی تھی اور خود ایک نزدیکی تعلیمی ادارے میں بغیر کسی معاوضے کے درس و تدریس میں خود کو مشغول رکھتی تھی۔ لیکن ایک دن جب وہ اچانک وقت سے پہلے ہی گھر چلی آئی تو وہ دھنگ رہ گئ جب اس نے اپنے خاوند اور عالیہ کو مشکوک حالت میں پایا۔ قیمی اور خانم کا من پسند سوٹ پہن کر عالیہ احمد کلیم کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی تھی، تو خانم نے اسے اسی وقت گھر سے بے گھر کردیا۔ ان کی شادی کے سات سال گزرے تھے، لیکن اولاد کی نعمت سے ابھی بھی محروم تھے۔ بہت عرصہ کے بعد جب خانم کا جانا سنگرمال شاپنگ کمپلیکس میں ہوا تو عالیہ کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی۔ پتہ کرنے پر عالیہ نے خانم سے خود ہی اعتراف کیا کہ وہ احمد کلیم کی دوسری بیوی بن گئی ہے۔ یہ خلش اگر نہ ہوتی، نور شاہ صاحب کے اکثر افسانے واقعی ایک سے بڑ کر ایک ہیں۔ یہ کتاب کا ساتواں افسانہ ہے جو ہماری گھریلو زندگیوں میں پیدا ہونے والی ایک گہری خلش کو بنیاد بناکر تخلیق کیا گیا ہے۔ عارف کی بیوی رضیہ اپنے شوہر کو اس چیز کا اصرار کرتی ہے کہ وہ اس کے رشتے داروں کو بار بار دعوت پر بلاتے رہیں۔
عارف کی قلیل آمدنی سے یہ سب کچھ ممکن نہیں تھا اور وہ اسے کفایت شعاری کا درس دیتا تھا۔ ایک دن وہ طعش میں آکر میکے چلی گئی مگر شام کو واپس اپنے گھر پہنچ کر شوہر سے گلے مل گئی اور اپنے کئے پر نادم بھی ہوئی تھی۔ اجنبی چہرے، افسانے میں ارشد کی کہانی بیان ہوئی ہے جس کے پاس سب کچھ تو ہے جیسے مال، دولت، نام اور فن مگر اس سب کے باوجود بھی وہ تنہائی کا شکار ہے۔ رشتے، کتاب میں شامل نویں افسانے کی کہانی سیٹھ جی کے اردگرد گھومتی نظر آتی ہے جو بچپن میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہو کر عمر بھر کے لیے یتیم ہو گیا تھا۔ اسے پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق تھا۔ اس کا چچا بھی فوت ہوا تھا اور اس نے دس ہزار روپے اس کے لیے بچا کے رکھے تھے جن کا فائدہ اٹھا کر اس نے ممبئی کا رخ کرکے ایک چھوٹی سی چائے کی دکان سجائی اور خوب پیسہ کمایا۔ بعد میں اس نے فلم انڈسٹری میں بھی کام کرنا شروع کیا، دولت، شہرت اور نام حاصل کیا۔ سنتوش ایک خوبصورت لڑکی سے شادی بھی رچائی اور پھول جیسی لڑکی راج کو جنم دیا۔ اس نے ایک ہوٹل بھی خریدا جس کا کمرہ نمبر 101 بہت ہی معروف اس وجہ سے تھا کہ اس میں شراب کے تمام اقسام کی بوتلیں بہتی تھی اور ہر دوسرے تیسرے روز ایک نئی اور خوبصورت لڑکی کو تباہ و برباد کیا جاتا تھا۔ آصف سیٹھ جی کا خاص نوکر تھا جو اس کے تمام کرتوتوں کا گواہ اور واقف تھا۔ اس کی بیٹی راج بھی ایک دن کمرہ نمبر 101 تک آئی مگر سیٹھ جی پر سکتہ سا چھا گیا۔ پتھر پتھر آئینہ، یہ کتاب کا دسواں افسانہ ہے۔ ہسپتال کے ایک وارڈ میں زیر علاج مریضوں کی داستان سنارہا ہے۔ اس وارڈ میں ایک بلی بھی کہیں سے گھس گئی تھی اور بیڈ نمبر آٹھ کے مریض کو نجانے کیوں اس بلی سے اتنا پیار ہوگیا تھا کہ وہ اس کو اپنے بسترے پر سلاتا تھا، کھلاتا تھا اور اسی کو دیکھ کر ہسپتال کے ایام خوشی سے گزارتا تھا۔ اچانک بیڈ نمبر چھ کے مریض نے اس بلی کو اپنے ننھے ننھے تین بچوں سمیت کھڑکی سے باہر نکال دیا، بیڈ نمبر آٹھ کے مریض سے یہ سب برداشت نہ ہوا اور وہ آخری نیند سو گیا۔ رشتوں کا درد، کتاب میں شامل یہ گیارواں اور آخری افسانہ ہے۔ رومانوی کہانی کو بنیاد بناکر اس تخلیق کو جنم دیا گیا ہے جو دو پریمیوں کی سچی محبت کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ کس طرح غریبی دو محبت کرنے والی روحوں کے درمیان حائل آکر انہیں ایک دوسرے سے الگ اور جدا کرتی ہیں خوبصورت انداز میں دکھایا گیا ہے۔ ان تمام افسانوں کو پڑھ کر ہر قاری اعتراف کر سکتا ہے کہ نور شاہ ایک مستند افسانہ نگار کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ افسانہ تخلیق کرنا بخوبی جانتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کھیلتے کھیلتے بھی نور شاہ کے افسانے ہوجاتے ہیں۔ کہانیوں کو ہنرمندی کے ساتھ صفحہ قرطاس پر لاتے ہیں اور اردگرد پیش آنے والے واقعات کی بےباک عکاسی کرتے ہیں۔ اللہ انہیں عمر دراز عطا کرے اور ادبی کہکشاں میں ایک چمکتے ہوئے ستارے کی طرح چمکائے۔
[email protected]