نور شاہ کا افسانوی مجموعہ ’’میرے لہو کی کہانی‘‘

Mir Ajaz
13 Min Read
رئیس احمد کمار
وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے جن معتبر ادیبوں نے اردو زباں و ادب کی خدمت اپنے خون جگر سے کی ہے ان میں نور شاہ صاحب کا نام سرفہرست ہے ۔ افسانوی ادب کی عظیم آوازیں عصمت چغتائی اور کرشن چندر کا اعتراف ہے کہ وہ کشمیر کی خوبصورتی کا عکس نور شاہ کے افسانوں میں دیکھتے ہیں ۔ وادی کشمیر میں نور شاہ نے ادبی دنیا میں ایک خاص پہنچان بنائی ہے ۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے مسلسل اپنے جذبات ، احساسات اور زندگی کے تجربے کو ضبط تحریر میں لاکر انہوں نے نئی نسل کے لئے ایک روشن مثال ثابت ہورہے ہیں ۔ انہوں نے کئی ناول ، افسانوی مجموعے اور ریڈیائی ڈرامے تخلیق کئے ہیں ۔ ان کی تخلیقات ملک و بیرون ممالک کے کئی معتبر رسائل و جرائد اور اختیارات کی زینت بنتے آئے ہیں ۔ جن فکشن نگاروں نے کشمیر کا پرچم آن بان سے لہرایا ہے ان میں نور شاہ پیش پیش ہیں اور آٹھویں دہے میں بھی ان کے قلم کی روشنائی ماند نہیں پڑی ہے ۔ ان کے قلم سے لگاتار افسانے بہہ رہے ہیں ۔’’‌میرے لہو کی کہانی‘‘ نور شاہ کا تازہ افسانوی مجموعہ ہے جو 122 صفحات پر مشتمل ہے اور جسے میزان پبلیشرز سرینگر نے طباعت دی ہے ۔ اس مجموعے میں کل 61 افسانے ، افسانچے اور منی کہانیاں قارئین کے لئے بطور تحفہ نور شاہ نے پیش کئے ہیں ۔ اس بارے میں نور شاہ خود لکھتے ہیں ،’’ ادب کی پگڈنڈی پر چلتے چلتے اب انسانی زندگی کے افسانے ، افسانچوں کی صورت اپنا رہے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ان دنوں طویل افسانے لکھنے کا چراغ ٹمٹما رہا ہے۔‘‘وادی کشمیر کے ایک بلند مرتبہ ادیب اور تواریخ دان محمد یوسف ٹینگ نور شاہ کے بارے میں رقمطراز ہیں :’’ نور شاہ کو کشمیر میں اردو افسانے کا بابا آدم تسلیم کرنے میں کسی محقق کو تامل ہو سکتا ہے مگر اسے اس شاندار صنف کا ہابیل ماننے میں کسی کو ہچکچاہٹ نہیں ہو گی ۔‘‘جنت بے نظیر کہلانے والی وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک اور منجھے ہوئے قلمکار اور افسانہ نگار جناب وحشی سعید بھی نور شاہ کو تعریفوں کے پل باندھنےہوئے یوں رقمطراز ہیں،’’جن تخلیق کاروں کی تخلیقات’ ‘بیسویں صدی‘ میں چھپتی تھیں ان کو اردو ادبی دنیا میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا ۔ بیسویں صدی میں لکھنے والی اہم شخصیات میں نور شاہ بھی شامل تھے۔ نور شاہ اپنی چھوٹی عمر میں ہی ہمارے لئے لےجنڈ بن گئے تھے۔‘‘نوجوان ادیب اور کشمیر کی ادبی افق پر ایک  چھاپ ڈالنے والے افسانہ نگار و انشایہ نگار ایس معشوق احمد، نور شاہ کے بارے میں لکھتے ہیں،’’ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ نور شاہ کون ہے تو میں جواباً کہوں گا کہ وہ دلیر جو سن رسیدگی میں افسانہ بن رہا ہے ، وہ فنکار جو پرانی کتاب کی نئی کہانی ترتیب دے رہا ہے ، جو آواز کا جادو جگا کر دردِ دل لکھ رہا ہے‘‘۔’دوا سے دعا تک‘ اس مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے جس میں ادیب نے ایک خاص مضمون کو افسانوی شکل سے آراستہ کیا ہے ۔ شہر و دیہات کے لوگ جب بھی کسی مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو ڈاکٹری علاج کے ساتھ وہ پیر فقیروں کے پاس جانا ضروری سمجھتے ہیں ، انہیں پورا یقین ہوتا ہے کہ اگر دوا نے کوئی راحت نہیں دی تو دعا ضرور رنگ لائے گا ۔ افسانہ ’’اپنا اپنا درد‘ ‘میں نور شاہ نے ادیبانہ سلیقے سے الفاظ کا مناسب استعمال کیا ہے اور ایک اہم موضوع کو صفحہ قرطاس پر لایا ہے ۔ اس افسانے کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ سماج میں پنپ رہی برائیاں پھیل رہی ہیں جیسا کہ ہم افسانے میں دیکھ رہے ہیں کہ جھیل کے کنارے ایک درند صفت انسان ایک معصوم بچی کو ایک سفید لفافے میں چنار کے نیچے چھوڑ کر چلا جاتاہے ۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ معاشرے میں اکرم جیسے درد دل رکھنے والے فرشتہ صفت انسان بھی موجود ہیں جو ایسی اولاد کے لئے اپنا سب کچھ قربان اور نچھاور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ افسانہ’’ دوسری بیوی‘‘ نور شاہ کے قدآور لکھاری ہونے کی تصدیق کرتی ہے ۔ رشوت ستانی کے معاملات کی ماہرانہ انداز میں عکاسی کی گئ ہے اور دوسری بیوی کہاں رہتی ہے اور اپنے چیف کو خوش رکھنے کے لئے کیا کیا کام غلام الدین انجام دیتا ہے اس تحریر میں ایک قاری چونک جاتا ہے ۔ ’’رشتے‘‘ ایک عظیم لکھاری کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی واقعہ یا حادثہ کو کہانی کا روپ دے کر ایک خوبصورت تخلیق عمل میں لاتے ہیں جیسا کہ ہم اس تحریر میں دیکھتے ہیں کہ دو چڑیاں باغ میں کچھ دانے تلاش کر رہی ہیں اور ایک دوسرے کے پر نوچنے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ کہانی’’ دستک ہوئی پہچانی سی‘‘ میں نور شاہ نے کشمیر کے بھائی چارہ کی خوب عکاسی کی ہے جو دہائیوں سے یہاں ایک میراث بنی ہوئی ہے جب کشمیری پنڈت اور مسلمان آپس میں سگے بھائیوں کی طرح ایک ساتھ زندگی کے میٹھے لمحات گزار رہے تھے اور آج بھی ان لمحات کے تلاش میں ہیں ۔ کہانی’’ درد دل‘‘ میں اس بات کو سلیقے سے قارئین تک پہنچایا گیا ہے کہ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے بہت ایسے ڈاکٹر صاحبان بھی موجود ہیں جو ملک سے باہر جانے کے بجائے اس وادی گلپوش میں ہی مریضوں کے درمیان زندگی کے لمحات گزارنے اور ان کا درد بانٹنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ افسانہ’’ نرخ نامہ‘‘سماج کے ان مفلوک الحال لوگوں کی ستم ظریفی اور خودغرض قصائیوں کی کارستانی کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے ۔ افسانہ’’ ماں‘‘ بہترین تخلیق ہے جس میں معاشرے کے ایک اہم مسلے کی نشاندھی کی گئ ہے ۔ آئے روز ہمارے اولاد جن کے لئے ماں باپ اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں اور اپنا سب کچھ لٹا دیتےہیں، وہی اولاد اپنے والدین کا سہارا بننے کے بجائے انہیں خدا کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتے ہیں ۔ افسانہ’’ انفکشن‘‘  ڈاکٹر حضرات کی نفسانی کمزوری کو دکھاتی ہے جو مریضہ کی خوبصورتی اور سندر شخصیت کے آگے خود گویا پگل جاتے ہیں ۔ افسانہ ’’آخری خط‘‘ ایک پوسٹ مین کی تنہائیوں بھری زندگی کے لمحات کا داستان پیش کرتاہے جو غیر شادی شدہ تھا اور سبکدوش ہونے کے بعد بھی اس کے بیگ میں ایک خاص خط پڑا ہوا تھا جو اسے ایک غیر شادی شدہ لڑکی نے  اُسے ارسال کیا تھااور اس کے ساتھ نکاح کے بندھن میں بندھنا چاہتی تھی۔ افسانہ’’ تلاش‘‘ جنگلی جانوروں خاص کر تیندوے کے آگے انسان کی بے بسی اور متعلقہ محکمے کے اہلکاروں کی غفلت شعاری کی خوب عکاسی کرتی نظر آتی ہے ۔ افسانہ’’ پرانی کتاب کی نئ کہانی‘‘طلاق کے منفی پہلو کو ظاہر کرتا ہے ۔ نکاح کے بندھن میں بندھے ہوئے دو افراد کی جدائی کس قدر بھاری پڑ جاتی ہے افسانے میں خوب دکھائی گئ ہے ۔ افسانہ’’ ایک سوال‘‘ دلکش انداز میں لکھی گئ تحریر ہے جو اولاد کی نیک یا نافرمان بننے کی پیش گوئی کرتی ہے ۔ افسانہ’’ نئ نسل‘‘ شہر سرینگر کی گلی کوچوں اور دیگر صحت افزاء جگہوں پر کتوں کی ہڑبونگ اور کاٹنے کی داستان بیان کرتی ہے ۔ افسانہ’’ مرد نامرد‘‘ ایک منفرد انداز میں تحریر کی گئ تخلیق ہے جو مصنف کی فنی مہارت کو ظاہر کرتا ہے۔ افسانہ ’’قربانی‘‘ ایک پُردرد تحریر ہے جو ایک پڑھی لکھی لڑکی کی قربانی کی داستان بیان کرتی ہے جو ایک عمر رسیدہ مرد،جس کی یہ تیسری شادی ہوتی ہے کے ساتھ اس غرض سے نکاح کرتی ہے تاکہ وہ اپنے نیک مقصد میں کامیاب ہوسکے۔ افسانہ’’ زمین پیاسی ہے‘‘ ایک بےاولاد ڈاکٹرجوڑے کی کہانی ہےجنہوں نے بے اولاد جوڑوں کے لئے ہی اپنی کلینک کھول رکھی ہے۔ افسانہ’’ دورنگ‘‘ نور شاہ کی وہ تخلیق ہے جو ایک ہی فرد کے دو رنگ دکھانے میں کامیاب نظر آتی ہے ۔ ’’گھر سے گھر تک‘‘ ایک بہترین افسانہ ہے جو موجودہ صورتحال کی خوب عکاسی کرتا ہے۔ اپنے عمررسیدہ والدین کو کس طرح اولڈ ایج ہومز میں منتقل کیا جاتا ہے واقعی ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ افسانہ’’ جینے کی ہوس‘‘کہتے ہیں نا کہ بوڑھے کو زندگی بہت پیاری ہوتی ہے اور کبھی مرنا نہیں چاہتا ہے ۔ زندہ رہنے کے لئے کیا سے کیا کر بیٹھتا ہے ۔ اس افسانے میں نور شاہ نے خوبصورت انداز میں دکھایا ہے ۔ افسانہ’’ پہچان‘‘ اُن والدین کی درد بھری کہانی پر مشتمل ہے جو اپنے بچوں کو اپنا مستقبل سنوارنے اور تابناک بنانے کی غرض سے انہیں بیرون ملک بھیج دیتے ہیں لیکن یہ بنا سوچے کہ تنہائیاں کس قدر انہیں بعد میں ستاتی رہیں گی اور وہ خود کشی کرنے پر بھی کس طرح اتر آئیں گے۔ افسانہ ’’سوداگر‘‘  جنت بے نظیر کشمیر میں امن کو ٹھیس پہنچانے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو کس طرح خودغرض سوداگروں نے جیل تک پہنچاکر ان کا مستقبل تاریک بنایا ہے۔ اس تحریر میں خوب عکاسی کی گئی ہے۔ افسانہ ’’ایک لمبی رات کی کہانی‘‘کرونا وائرس کے دور میں جہاں لوگ یہ ماننے سے قاصر تھے کہ کرونا بھی کوئی بیماری ہے تو دوسری طرف وہی لوگ آہستہ آہستہ اسی مہلک وباء کی لپیٹ میں آتے گئے اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ افسانہ’’ میرے لہو کی کہانی‘‘اس مجموعہ کا آخری اور ٹائٹل افسانہ ہے۔ شاندار اور دلکش انداز میں ان لوگوں کی کہانی پیش کرتاہے جو ملک سے باہر جانے کی دوڑ میں ہمیشہ رہتے ہیں تاکہ اپنا کیریئر بنانے یا ازدواجی زندگی میں مختلف رنگ بھرنے کا مقصد پورا کرسکیں لیکن ان کی غیر موجودگی میں نہ صرف وہ اپنی زمین جایداد اور مملکت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ افسانوی مجموعہ میں شامل کہانیوں اور افسانچوں میں رومان بھی ہے اور معاشرے میں پھیل رہی برائیوں کا عکس بھی ، نشے کی وبا ہو یا رشوت کی آفت نور شاہ نے خوبصورت انداز میں صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
Share This Article