سبزار احمد بٹ
نور شاہ کا نام سنتے ہی افسانوی ادب کی کائنات آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتی ہے۔ نور شاہ پانچ دہائیوں سے افسانوی ادب کی خدمت کرتے آرہے ہیں بلکہ ان پانچ دہائیوں میں افسانوی ادب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔ اس دوران حالات تبدیل ہوتے گئے اور نور شاہ نے قلم کی جنبش سے حالات کا جائزہ لیا اور معاشرے کو آئینہ دکھاتے رہے۔نورشاہ کے متعدد افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جن میں” بے گھاٹ کی ناؤ” ،”ایک رات کی ملکہ”، ” ویرانے کے پھول” ،” بے ثمر سچ”، “آسمان پھول اور لہو”،”کشمیر کہانی ” او ” ایک معمولی آدمی” قابل ِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک درجن کے قریب ناول لکھے ہیں۔ جن میں “پائل کے رخم ” ،”نیلی جیل کالے سائے” ،”آدھی رات کا سورج” ،”آؤ سو جائیں “جیسے ناول قا بل ِ ذکر ہیں۔زیر تبصرہ کتاب بھی نورشاہ کا افسانوی مجموعہ ” لفظ لفظ داستان ” ہے۔ مذکورہ افسانوی مجموعے میں نور شاہ نے سماج کو آئینہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔یہ آئینہ دیکھ کر معاشرے کا چہرہ کبھی کبھی بھیانک اور خوفناک بھی لگتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سماج کا چہرہ ایسا ہی ہے کیونکہ آئینہ جھوٹ نہیں بولتا۔شروعات میں ” دیوار پر لٹکی تصویر ” نام کا افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سے کھیلتے کھیلتے میاں بیوی کے رشتے ختم ہو رہے ہیں ،معاشرہ بکھر رہا ہے، خاندان ٹوٹ رہے ہیں اور پھر سماج پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ طلاق ہونے کے بعد منا باپ کے حصے میں آجاتا ہے اور منی ماں کے۔منا باپ کے لاڈ پیار اور پیسوں کے نشے میں اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ وہ لڑکیوں کی عزت تار تار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ہے یہاں تک کہ اس کی اپنی بہن بھی اس چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ وہ منا کے آفس میں دیوار پر لٹکی اپنے باپ کی تصویر پہنچاتی ہے اور بچ جاتی ہے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح افسانہ “آرزو” میں نور شاہ نے عورت کا نیا چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ عام حالات میں عورت طلاق کی دھمکی سے ڈر جاتی ہے، سہم جاتی ہے اور مرد کی ہر الٹی سیدھی بات مانتی ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہے ۔یہاں طلاق کی دھمکی سنتے ہی عورت مرد کو قانون کا ایسا سبق سکھاتی ہے کہ وہ زیر ہو جاتا ہے۔ افسانہ “اندھیرے اجالے” میں جہاں ایک فوجی اپنی محبت کو چھوڑ کر ملک کی حفاظت کیلئے جاتا ہے اور ملک کی حفاظت کے دوران آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوجاتا ہے۔ جبکہ کیمیکل سٹور میں اس کی محبوبہ کا چہرہ ایک حادثے میں مکمل طور پر جل جاتا ہے لیکن اتنا کچھ ہونے کے بعد میں ان دونوں کی محبت میں فرق نہیں آتا ہے۔ افسانہ نگار یہ بات بتانے میں کامیاب ہوئے ہیںکہ محبت سچی ہو تو رنگ روپ اور جسموں کی بناوٹ کوئی معنی نہیں رکھتی۔افسانہ “اندر کی بات” میں افسانہ نگار نے یہ حقیقت ہماری آنکھوں کے سامنے لائی ہے کہ آجکل کے دور میں میاں بیوی کس قدر اپنی مصروفیات میں محو ہو جاتے ہیں کہ انہیں نہ اپنے بچوں کے پاس جانے کی فرصت ہے اور نہ یہ ایک دوسرے کیلئے وقت نکال پاتے ہیں۔ آخر ایسی دولت اور ایسی مصروفیات کا کیا حاصل ہے جہاں ہم یہ بھی نہ دیکھ سکیں کہ ہمارے بچے کس ماحول میں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔افسانے کے آخر میں ایک بے بس شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ” میرے لئے۔۔۔۔۔۔۔میرے لئے ایک ایسی خاتون کا انتظام کرو جو لمحہ لمحہ میرے ساتھ رہے۔لمحہ لمحہ میرا ساتھ دے اور جس کا لمحہ لمحہ صرف میرے لئے ہو۔۔۔۔۔ اورمیرے دو بچوں کے لئے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری گھر گرہستی کے لئے۔۔۔۔کیا تم ایسا کر سکتی ہو۔۔۔۔!!!!!!!
یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر چلا جاتا ہے !!!!!!۔افسانہ ” ایک نیا تجربہ” میں نور شاہ نے نئی نسل کی احمقانہ سوچ کا جائزہ لیا ہے جس سوچ کو موجودہ نسل آزاد خیالی سے تعبیر کرتی ہے۔ وہ دراصل آزاد خیالی نہیں بلکہ سراسر بے حیائی اور بے شرمی ہے۔ افسانے کا اختتام اگر چہ بھیانک اور ڈرائونا ہے جہاں دو نوجوان اس قدر بے حیا ہو چکے ہوتے ہیں کہ اپنی بیویوں تک کو بدلنے کیلئے راضی ہو جاتے ہیں۔ نور شاہ نے اس ماحول پر چوٹ کی ہے جس کے وجہ سے یہ نوجوان ایسا کرنے کے لئے تیار ہوئے ہیں۔موجودہ نسل کو زیادہ آزادی دینا بھی مہنگا پڑ سکتا ہے ،یہ بات نور شاہ نے بہت خوبصورت انداز میں اپنی کہانی کے ذریعے معاشرے تک پہنچائی ہے۔”باغ سبز” نام کا ایک مختصر افسانہ بھی اس مجموعہ میں شامل ہے۔ اس افسانے کو سمجھنا تھوڑا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ افسانہ نگار کا ماننا ہے کہ جو کچھ دکھانے کی کوششں کی جارہی ہے ،ویسا نہیں ہوتا ہے ،کچھ باتیں فقط بتائی جاتی ہیں جبکہ حقیقت کا ان سے دور دور تک کا بھی تعلق نہیں ہوتا ہے جبکہ یہ باتیں سبز باغ کی طرح ہوتی ہیں یعنی دھوکہ فقط دھوکہ۔ افسانے میں سبز باغ میں ماحولیاتی بیداری کا جلسہ منعقد کیا جاتا ہے۔ہر طرف سے صفائی کے گیت گائے جاتے ہیں۔ہوائیں معطر کی جاتی ہیں ،صفائی کی مہم میں حصہ لینے والوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے لیکن جلسہ ختم ہونے کے بعد سبز باغ ویرانی میں تبدیل ہوتا ہے کیونکہ جلسے کا سارا کوڑا کرکٹ باغ کو ویران کر جاتا ہے۔ اس معنی کے علاوہ بھی اس افسانے کے بہت سارے مطلب نکالے جاسکتے ہیں۔ افسانہ ” لمبے فاصلے چھوٹی کہانی” کے اگر چہ کئی سارے پہلو ہیں لیکن ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں بچوں کے سامنے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے کیونکہ بچے ہماری حرکات و سکنات کی نقل اتارتے ہیں اور ہماری ہی حرکتوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو ہمارے بچے اچھے برے بنتے ہیں۔نور شاہ کے چند افسانے پڑھ کر تو ہونٹ جیسے ساکت ہو جاتے ہیں اور دھیرے دھیرے ہونٹوں پر ایک من موہنی سی مسکراہٹ پھیلنے لگتی ہے۔ اس حوالے سے افسانہ” وقت کا چہرہ” اور ” پھر یوں ہوا”کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ اس افسانوی مجموعے میں اپنی اپنی دنیا، مجبوری پھول اور انگارے، دھند، زہریلی لذت، تنہائی اور بالکونی نام کے شاندار افسانے بھی شامل ہیں۔ آخر پر چند افسانچے بھی درج ہیں۔ نور شاہ کا ہر افسانہ ایک سے بڑھ کر ایک ہے ۔افسانوی مجموعے کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نور شاہ نے سادہ زبان استعمال کی ہے اور بڑی بے تکلفی سے لکھا ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے گھر میں بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں یا کسی کو کہانی سنا رہے ہوں۔
نورشاہ نے اپنے افسانوں میں جابجا کشمیری کے دلفریب نظاروں، جھیلوں، فلک بوس پہاڑوں، ندی نالوں، پانی کے صاف وشفاف جھرنوں کا ذکر کیا ہے۔ نور شاہ کے افسانوں میں رومانیت کا عنصر غالب آجاتا ہے لیکن دراصل نور شاہ سماج کو جھوٹ بول کر دھوکہ نہیں دینا چاہتے ہیںبلکہ سچ بول رہے ہیں اور سماج کو سچائی برداشت کرنے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔ نور شاہ کے افسانوں کو سمجھنا مشکل ہورہا ہے کیونکہ افسانہ بظاہر ایک پیغام دیتا ہے جبکہ افسانے کے پس ِ پردہ بہت سارے پیغامات ہوتے ہیں۔ ان پیغامات کو سمجھنے کے لئے نورشاہ کے افسانوں کو بہت ہی سنجیدگی سے پڑھنا لازمی ہے کیونکہ نورشاہ کے اکثر افسانے سرسری طور پر پڑھنے سے گرفت میں نہیں آتے ہیں۔ اس افسانوی مجموعے میں شامل ہر افسانے پر تبصرہ بلکہ ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے یا یوں کہئے کہ اس افسانوی مجموعے پر لکھ کر ایک مکمل نئی کتاب تحریر کی جاسکتی ہے۔ نور شاہ نے اپنے افسانوں میں سماج کے مسائل کی عکاسی بلکہ نمائندگی کی ہے۔کبھی کھلم کھلا تو کبھی پس ِ پردہ۔ کہیں کہیں پر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ نور شاہ نے جنسی مسائل کو زیادہ اہمیت دی ہے بلکہ کتاب میں موجود چند افسانوں کو پڑھ کر کہا جاسکتا ہے کہ نور شاہ کے ان افسانوں میں رومانیت اور حسن پرستی کا غلبہ ہے۔ اس حوالے سے نور شاہ خود لکھتے ہیں کہ؛
” میرے افسانوں کے اکثر کردار رومانی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ زندگی کے دھارے رومان کے چشموں سے ہی پھوٹتے ہیں۔۔۔۔۔زندگی حسن و عشق سے عبارت ہے اور نسل آدم کی بقاء ان سے ہی قائم ہے “۔لیکن غوروفکر کرنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ جنسی استحصال اور ہوس موجودہ معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے جسے نور شاہ اپنی کہانیوں اور باقی تحریروں کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کرے کہ نور شاہ کا سایہ اردو ادب پر تادیربنا رہے۔آمین
رابطہ۔اویل نورآباد
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)