ایک زمانے تک چین اور امریکہ کے درمیان سردجنگ رہی تھی۔ تعلقات کی اس کشیدگی کا خاتمہ چین کے معروف کھیل ’’پنگ پانگ‘‘ (ٹیبل ٹینس) کے سبب ہوا جب کہ کچھ ڈپلومیٹس نے خفیہ گفتگو کے ذریعہ دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ اسی سبب سے اسے پنگ پانگ ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں کا آپسی تبادلہ باہمی میچز وغیرہ سے خوب کام لیا گیا۔ کسی بھی دو ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے کے لئے جو مشن ہوتا ہے، اسے پنگ پانگ ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان میں کرکٹ کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے کے لئے جو خفیہ سیاسی تدابیر کی جاتی ہیں اسے کرکٹ ڈپلومیسی کہا جاسکتا ہے۔ دونوں ملکوں میں کرکٹ مقابلوں کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے اور دونوں ملکوں کے کھلاڑی ایک دوسرے کے ملک میں بے انتہاء مقبول ہیں۔ کرکٹ کے ذریعہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر اور خوشگواربنایا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ملک کی بھاجپا حکومت کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اسے ہندپاک تعلقات بہتر بنانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ پاکستان کا خیالی ’’خطرہ‘‘بتاکر بھاجپا آسانی سے انتہاء پسندہندووں کے ووٹ حاصل کرتی ہے۔ اسی لئے جب مشہور ہندوستانی کھلاڑی سدھو ، عمران خان کی رسم حلف برداری میں شرکت کرنے پاکستان گئے تو یوپیالی میں طوفان کھڑا کیا جارہا ہے کہ جیسے سدھو نے ملک کے ساتھ بہت بڑی غداری کی ہو۔ ان ہی تنقیدوں اور اعتراضات بلکہ الزامات سے بچنے کے لئے گواسکر اور کپل دیو نے پاکستان نہیں جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی جب کہ گواسکر اور کپل سالہاسال سے پاکستان میں غالباً ہندوستان سے زیادہ مقبول ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور گواسکر میں گزشتہ چار دہائیوں سے بے انتہاء دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ ان کی دوستی بھی ایک طرح سے بے مثال ہے کیونکہ بلے باز کی حیثیت سے گواسکر اور گیند باز کی حیثیت سے میدان میں ایک دوسرے کے حریف بھی رہے ہیں لیکن دوستی اپنی جگہ بتدریج مضبوط ہوتی گئی۔ عام طور باور کیا جاتا ہے کہ گواسکر اور کپل دیو کو بھی عمران خان کی دعوت پر ان کی رسم حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کا خاصا افسوس رہا ہوگا۔
اگر وزیر اعظم مودی بغیر بلائے اچانک پاکستان جاکر نواز شریف کے گھر شادی کی دعوت میں بریانی تناول کرسکتے ہیں اور برتھ ڈے کیک کاٹ سکتے ہیں تونو جود سنگھ سدھو کے پاکستان جانے پر اعتراض کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ جب کہ ہندوستانی کرکٹ کھلاڑیوں کو عمران خاں نے بذات خود مدعوکیا تھا۔ سنگھ پریوار نے سدھو پر جو زبردست تنقید کی ہے، حالانکہ اس کا کوئی جواز ہی نہیں۔ کرکٹ کھلاڑی ہوں یا سیاست دان ، ان کے باہمی تعلقات کا ملکوں اور قوموں پر خوشگوار اثر تو ہوسکتا ہے لیکن کسی صورت ناخوشگوار نہیں ۔ اس لئے نہ ہی دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات کا ان کے کرکٹ پلیروں کے ذاتی تعلقات پر کوئی اثر پڑنا چاہئے۔ ان کی باہمی دوستانہ تعلقات کا سلسلہ ہندوستان اور پاکستان میں آزادی کے بعد سے ہی چلا آرہا ہے ، حتیٰ کہ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں سے ہمیشہ سے قریبی تعلق رہے بلکہ دونوں کی جانب سے ’’آموں کا تحفہ‘‘ اُن ایام میںبڑی شہرت رکھتا تھا۔ کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے درمیان بھی باہم دگر تحفوں کا تبادلہ ہوچکا ہے۔ اس لئے سدھو پر ایسی تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی ہے ۔ پنچاب کی کانگریسی حکومت کے ایک وزیر ہوتے ہوئے ان کے سفر پاکستان پر جو تنقیدیں ہورہی ہیں، وہ نہ صرف بے معنی اور بے جواز ہیں بلکہ مخالفت برائے مخالفت کا ایک نادر نمونہ ہیں۔ یاد رہے سدھو کے پاکستان جانے پر حکومت کی پالیسی متاثر نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ملک کے مفادات اور صیانت پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے۔ توقع یہ کی جانی چاہئے کہ ملک کی نہ صرف موجودہ بلکہ آنی والی حکومتیں بھی اس قسم کی تنگ نظری کا مستقبل میں کبھی مظاہرہ نہیں کریں گی۔ سنگھ پریوار کے تابعدار میڈیا کو بھی قوم کے مفاد میںیہ سمجھنا چاہئے کہ اس طرح دنیا بھر میں ملک کا نام بدنام ہورہا ہے اور ہم ایک عظیم جمہوری ملک کی جگہ تنگ نظر مملکت سمجھنے جانے لگے ہیں۔
Ph: 07997694060
Email: [email protected]