زندگی کیا ہے؟ صرف وقت! پس اگر ہم اس کو ضائع کرتے ہیں تو گویا زندگی برباد کرتے ہیں۔اس لئے زندگی میں کسی بھی مقصد کے حصول یا کامیابی کے لئےضروری ہے کہ حیوانات کی طرح حلیم ، صابر اور محنت کش بن جائیںاور کوئی دن ایسا نہ گذرے ،جس میں ہم اپنے آپ میں کوئی بہتری پیدا نہ کرسکیں۔بے شک انسان کی زندگی مختلف ادوار کا حسین امتزاج ہے، یہ الگ بات ہے کہ کچھ ان ادوار سے بھر پور استفادہ کرپاتے ہیں اور بعض محروم رہ جاتے ہیں۔ بظاہر انسانی زندگی کا آغاز بچپن سے ہوتا ہے، جہاں وہ بے شمار محبت و الفت کے لمحات اپنے والدین اور عزیز و اقارب کے درمیان گزارتا ہے اور یہیں سےاُس کے سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، پھر وہ اسکول جاتا ہے، جہاں اُس کے کتابی علم کی ابتداء ہوتی ہے۔ویسے تو ہر انسان مرتے دم تک سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے لیکن زمانہ طالب علمی ہر لحاظ سے زندگی کا ایک اہم ترین دور ہے۔ گھریلو تربیت،اسکول طلبا اور اساتذہ سے تعلقات،کالج اور یونیورسٹی میں ملنے والے طلبہ و طالبات ،معاشرہ جس کا وہ حصہ ہے، اس کے اثرات،یہ سب مل کر شخصیت بنانے و سنوارنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ بچپن میں انسان کے پاس خواہشات اور مستقبل کے منصوبے ہوتے ہیں لیکن جوانی وہ دور ہےجس میں اُن خواہشات اور منصوبوں پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے۔
لہٰذا انسانی زندگی کے یہ لمحات، جنہیں بچپن اور جوانی کہا جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں اسکول اور کالج و یونیورسٹی کی زندگی، نہایت بیش قیمت ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف اسکولوں میں بچوں کی تربیت کے مختلف طریقہ استعمال کئے جاتے ہیں تو وہیں دوسری طرف کالج و یونیو رسٹی میں مختلف افکار و نظریات کی تشہیر ہوتی ہے، اس تربیت و افکار کے ذریعے زندگی کو ڈھالنے کی بھر پور کوشش و جستجو ہوتی ہے۔ ماں باپ اور اساتذہ کو گمان ہوتا ہے کہ ان کی اب تک کی گئی تربیت رنگ لائے گی۔ ایسے وقت میں ایک نوجوان کی زندگی، اس کی پسندو نا پسند، اس کی فکر، اس کے خیالات اور دنیا کو دیکھنے کا نظریہ، اس کا گرم خون، اس کے جذبات و احساسات اور اس کی قوت و توانائیاں ،یہ تمام چیزیں مل کر اس کے لئے کوئی بھی رُخ اختیار کرنے میں مانع نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان ملک ومعاشرہ کا مستقبل کہلاتے ہیں، وہ جس رُخ پر چل پڑیں، اُس رُخ کی طلاطم خیز ہواؤں کا سینہ چیرتے ہوئے آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔زمانہ طالب علمی میں نوجوان بڑی عمر کے لوگوں کے بالمقابل زیادہ مخلص ہوتے ہیںاور کسی قسم کے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کراپنی پروا ہ کئے بغیر اقدام کر گزرتے ہیں۔ جس کے باوصف مختلف طاقتیں، پارٹیاں اور تنظیمیں نوجوانوں کو اپنے مقاصد و نصب العین سے وابستہ کرتی ہیں۔
آج ہم بخوبی دیکھ رہے ہیں کہ کہیں طلبہ و نوجوانوں کو عقائد کے اعتبار سے گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو کہیں غلط تشریح و تعبیر کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو اپنے مفاد کی خاطر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہیں طلبہ وطالبات کو گمراہ کیا جا رہا ہے توکہیں ان کو نفسیاتی ہیجان میں مبتلا کرکے معاشرہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے، کہیں انٹرٹینمنٹ اور سماجی روابط کے نام پر اُن کی صلاحیتوں کے رُخ کو موڑا جا رہا ہے توکہیں فیشن اور تہذیب جدید دور کا درجہ دیا جا رہا ہے۔اس صورت حال میں عام طور پر بے مقصد زندگی گزارنے والے طلبہ و طالبات گمراہی کو بہ آسانی اختیار کر لیتے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت سے بخوبی واقف ہوں اور اگر وہ خودحقیقت ذات اور حقیقت خودی کی جانب پیش رفت نہ کریں تو پھر مخصوص حالات کے پیش نظر باشعور، سنجیدہ، مخلص افراد و گروہ کو چاہیے کہ طلبہ و طالبات کے سامنے ان کی حیثیت واضح کریں۔جن گمراہیوں اور لایعنی و بے مقصد کاموں میں وہ مصروف عمل ہیں ان سے اُن کو متنبہ کریں۔ ہر طالب علم کو یہ بات ذہن نشین کروانی چاہئے کہ ان کی صلاحیتوں پر ان کے معاشرے وقوم کا بھی حق ہے۔ لہٰذا عملی زندگی میں نوجوانوں میں صرف اپنے مستقبل کو تابناک کرنے کی ہی جدوجہد شامل نہ ہو بلکہ اپنے ملک و معاشرہ کی فلاح و بہبود کو بھی مدِ نظر رکھیںاوراپنی توانائیاں اور جذبات و احساسات غلط راہوں پر نہ ڈالیں۔