بے شک ہمارے معاشرے میں افرا تفری ، فرسٹریشن ، بے صبری، عدم برداشت،بے راہ روی اور بے حیائی کافی حد تک بڑھ چکی ہےاور شائشتگی غائب ہوگئی ہے۔ کسی بھی بات پر جذباتی ہوجانا، بد زبانی و بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنااور نازیبا رویہ اب تعلیم یافتہ نوجوانوں کی زندگی میں بھی نظر آرہا ہے۔جدیدیت ،نام نہاد ترقی اور مغرب کی اندھی تقلید نے قدم قدم پر نوجوان نسل کو متاثر کردیا ہے،ان کا لباس ،چال ڈھال اور اندازِ بیاں سب کچھ بدل گیا ہے۔نوجوان نسل کی ایک خاصی تعداد نےبدلتے فیشن کو اپنانا شغل بنادیا ہےاور مختلف حُلیے تبدیل کرنا اپنا حق سمجھ لیا ہے۔اس صورت حال کا شکار لڑکے ہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکیاں بھی ہوچکی ہیں۔بعض لڑکوں نے کانوں میں بالیاں، بالوں میں رِبن اور کلائیوں میں کڑے ڈال کر اپنے حُلیے بگاڑ دیئے ہیںجبکہ لڑکیوں کی ایک خاصی تعداد نے بھی مردانہ لباس اور کچھ ایسے انداز اپنائے ہیں کہ اُن کی صنف مشکوک ہوگئی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں نے ایک دوسرے کی وضع قطع اپنائی ہوئی ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ٹی وی پراور فلموں میںدکھائے جانے والے محلات اور اشیائے تعیش کو دیکھ کر درمیانے طبقے کی نوجوان نسل ،یہ سب چیزیں حاصل کرنے کے لئے غلط قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتی اور اپنا مستقبل تباہ کررہی ہے۔اسی طرح ہمارے معاشرے کےنوجوان نسل کی ایک بڑی تعداداپنی تمام اقدار اور روایات کو پامال کرکے غیروں کی تہذیب کے دیوانی ہوچکی ہے۔اگرچہ شرم وحیا سے عاری معاشرہ کبھی بھی ہمارا کلچر نہیں رہا مگر اب معاشرے میں بے حِسی و بے شرمی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ظاہر ہے جس کسی قوم یا معاشرے میں دیانتداری،حق پرستی اور احساسِ ذمہ داری کا جذبہ باقی نہیں رہتا ،وہ معاشرہ ہر معاملے میں زوال پذیر ہوجاتا ہے،مختلف معاملات میںاُس کی اہمیت گھٹ جاتی ہےاورمایوسی ،مشکلات و غلامی اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔چونکہ اب ہماری معاشرتی بُرائیوں میں کافی اضافہ ہوگیا ہے ،جس کے نتیجے میں نہ صرف ہماری ذاتی زندگی اجیرن ہوگئی ہے بلکہ اجتماعی زندگی بھی کافی حد تک متاثر ہوگئی ہے۔حالانکہ بُرائیوں نے ہمیں نہیں گھیرا بلکہ ہم نے خود بُرائیوں کو گلے لگایا ۔ہم نے اپنی کوتاہی ،سُستی ،خود غرضی اور دین سے بیزاری کی وجہ سے زیادہ تر بُرائیوں کو خود جنم دیا اور دوسروں کی نقالی کے جنوں میں اپنی خوبیوں اور اقدار کو خیر باد کہہ دیا۔ہم نے کون سی چیز صاف و پاک رکھی،کس معاملے میں انصاف برتا،کس حد تک دین داری کی پاسداری کی؟ہمیں آج بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ۔ہر میدان اور ہر شعبہ ٔ کاروبار میں خود غرضی ،لالچ اور ذاتی منفعت پرستی شدو مد سے جاری ہے،جس سےتفریق اور منافقت فروغ پارہی ہے۔انہی بُرائیوں اور خرابیوں نے ہمارے معاشرے کو رشوت ،ناانصافی ،بدعنوانی اور ناجائز منافع خوری کے چکّر میں ایسےجکڑ دیا ہے کہ ہر فرد کی حدِ نظر صرف دُنیا کی شان و شوکت اور عیش و آرام تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔معاشرتی تقاضوں کا شعور ہم بھول چکے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ ہر معاملے میں ہم دن بہ دن پست و خست ہورہے ہیںاور ہر میدان میں ہمارا نقصان ہورہا ہے۔یہاں تک کہ ہماری تہذیب و تمدن ،اقدار اور ہماری اسلامی روایات کی عکاسی تک معدوم ہوتی جارہی ہے۔نوجوان نسل کا اپنا حُلیہ بگاڑدینے کا افسوس ناک عمل بھی اس کی ایک واضح کڑی ہے۔اس صورت حال پر سنجیدہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہےکہ جس راستے پر ہمارا نوجوان چل پڑا ہے،وہ کسی صورت میں ہمارے معاشرتی اقدار کے حق میں نہیں جاتا بلکہ معاشرے کو مزید زوال پذیر بنانے میں انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہےجبکہ اس سلسلے میں مسلسل کوتاہی عبرت ناک ثابت ہوسکتی ہے۔اگر ہم واقعی صدق دلی اور پختہ عزم سے اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں تو موجودہ صورت حال برقرار نہیں رہ سکتی بلکہ ہماری کوششوں سے ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے،بشرطیکہ عزت سے جینے کے لئے ہم جو کچھ ظاہری طور نظر آنا چاہتے ہیں ویسے ہی ہم باطنی طور پر بھی ہوں۔ظاہر ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی گھر ہوتی ہے،اس پلیٹ فارم پر اگر نئی نسل کی تربیت کردی جائے تو پھر وہ معاشرے کے بہترین افراد بن کر سامنے آتے ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج تربیت کایہ عمل کافی کمزور ہوچکا ہے۔