ہمارا کشمیری معاشرہ جہاں بہت ساری بُرائیوں اور خرابیوں سے لت پت ہوچکا ہے وہیں اس معاشرے میںیہ خرابی بھی پائی جاتی ہے کہ اگر کسی ما لدار یامتوسط گھرانے کا کوئی تعلیم یافتہ لاڈلا نوجوان کسی سرکاری یا غیر سرکاری محکمے میں کوئی اچھاجاب نہ ملنے کے باعث، کسی اور کام کاج میںاپنی محنت وکاوشوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو نہ صرف اُس کے احباب یارشتہ دار بلکہ اُس کے اپنے گھر والےتک اُس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائےاُس کا تمسخراُڑانے لگتے ہیں،اُسے کمتر سمجھنے لگتے ہیںاور اُسے خاندان کی ناک کٹوانے والے فرد کےخطاب سے بھی نوازتے ہیں۔حالانکہ قدرت نے انسان کو ناک بنیادی طور پر سانس لینے اور سونگھنے کے لیے دی ہے، لیکن ہمارے معاشرتی نظریات میں ناک کوبھی اعلیٰ وادنیٰ اوردیگر کئی شکلوں میں دیکھا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بیشتر پڑھے لکھے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو ندامت و حسرت میں ہمیشہ کے لئے دفن کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں،پھروہ کسی بھی چھوٹے موٹے جاب یاکام کو کر نا اپنا توہین سمجھتے ہیں اور اچھے جاب کے انتظار میں اپنا قیمتی وقت گنوا دیتے ہیں۔ حالانکہ کوئی بھی جائز کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا اور کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہوتا ہے۔لیکن معاشرے کی کم ظرفی اور گھروالوں کی اَنّا پرستی و غلط روی سے کئی نوجوانوں کی سوچنے سمجھنے کی قوت اور کچھ کرکے دکھانے کی صلاحیت آہستہ آہستہ نابود ہو جاتی ہےاوروہ بے کار بیٹھ کےذہنی و جسمانی طور بوسیدہ ہوکر احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں یا ڈپریشن میں مبتلا ہوتے ہیں یا پھر منشیات کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ہاں!اس بات کو جھٹلایا نہیںجاسکتا کہ خاندان معاشرے کا اہم اور بنیادی عنصر ہے اور اولادکی تعلیم و تربیت میں والدین اور گھریلو ماحول کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو کچھ بھی والدین اپنی اولاد کے لئے چاہیں ،وہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔ہر کوئی ڈاکٹر ،انجینئر ،پروفیسر، مجسٹریٹ یا اعلیٰ عہدیدار تو نہیں بن سکتا ہے ۔چنانچہ کائنات بنانے اور چلانے والے خالق کی منشاء سے ہی تو سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔اس لئےکائنات میں اور بھی دیگرچھوٹے بڑےکام کاج کرنے والوں ضرورت ہے،تاکہ انسانی معاشروں کی زندگی کا نظام تواتر کے ساتھ چلتا ر ہے۔معاشرے کے لئےکسی بھی جائز کام کاج سے منسلک سُلجھے ہوئے باکردار افرادبھی میسر ہونے چاہئے،جو اپنے خاندان اوراپنے معاشرے کی فلاح و بہبودی اور ترقی کے لئے اپنا اپناراستہ استوارکرسکیں۔لیکن ہمارے معاشرے میںایسے نوجوانوں کی تعداد بہت قلیل نظر آتی ہے۔جتنے بھی نوجوان کسی بھی میدان میں آگے بڑھے اور کامیابی حاصل کیں،اُن میں سے زیادہ تر نوجوانوں کی کاوشیں اپنی اور اپنےخاندان کے گرد ہی گھومتی ہیںاور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں اُن کا کردار نفی کے برابر ہے۔ بغور دیکھا جائے تو اس میں سارا قصور نوجوانوں کا نہیںبلکہ ایسےکئی عوامل ہیں جو نوجوانوں کی اس راہ میں رکاوٹ کا باعث ہیں، جن پر اگر توجہ دی جائے تو صورت حال میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔آج بھی ہمارے معاشرےمیں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں،جن میں تعینِ مقصد اور حصولِ مقصد کی راہ میں جانفشانی اور جانثاری کے جذبے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح جوش مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن اُن کی محنت اور تگ و دَو کے مقصدِ معین میں یا تو خاندانی ناک آڑے آتی ہے یا معاشرتی نظریات روڑے اٹکاتی ہے۔جن کےباعث اُن کا ہدف نہ صرف اُن سے بہت دور چلا جاتا ہے بلکہ ان کی ساری تلاش و جستجو بھی غارت ہوجاتی ہےاور وہ اپنے مقصدِ حیات میں ناکام ہوجاتے ہیں۔آج بھی ہمارے معاشرےمیںبہت سے پڑھے لکھے نوجوان ملک و معاشرے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیںلیکن اُنہیں ایسا پلیٹ فارم نہیں ملتا ،جہاں اُنہیںہم خیال والدین ،رشتہ دار یا معاشرے کے دوسرے لوگوں کی مشترکہ کوششوں سے آگے بڑھنے میں استحکام ملتا ،کیونکہ کوئی بھی نوجوان چاہے جتنا بھی قابل ہو ،تنہا کوئی بھی کام احسن طریقے سے سر انجام نہیں دے سکتا۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی انتظامیہ یہاں ایسے اداروں کا قیام عمل میں لائیں،جہاں ایسے نوجوانوں کی رہنمائی ہوسکےاور ان کی مالی معاونت کرکے انہیںآگے بڑھنے میں مدد مل سکےتاکہ وہ اپنی ذہنی تجزیاتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک و معاشرےکو ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن کرسکیں۔