سرینگر//لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے کہا ہے کہ پولیس زیادتیوں کے نتیجے میں کشمیری نوجوان عسکریت کی طرف مائل ہورہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پرامن تحریک میں شامل ان بچوں کو تھرڈ ڈگری ٹارچر، تذلیل اور قتل کرکے پھر ان کی لاشوں پر نہ صرف جشن منانا بلکہ میڈیا کے ذریعے من پسند بیانیہ پیش کرنے کا عمل ظلم کے سوا کچھ نہیں کہلاسکتا۔محمد یاسین ملک نے پاندان نوہٹہ، سید حمید پورہ (ژرپورہ) نارہ بل اور غورہ پوری صنعت نگر جاکر رڈ بگ ماگام میں جاں بحق کئے گئے سجاد احمدگلکار، تفضل الاسلام اورمحمد عاقب گل کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا اور اُن کی ڈھارس بندھائی ۔فرنٹ چیئرمین نے کہا کہ حکمرانوں اور انکی پولیس کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ ان کا یہ رویہ تاریخ کا حصہ بن رہا ہے ۔ملک کے ہمراہ زونل صدر نور محمد کلوال اور زونل آرگنائزر بشیر احمد کشمیری بھی تھے۔بیان کے مطابق نوہٹہ میںسجاد کے لواحقین اور مقامی آبادی کے معززین نے اس موقع پر یاسین ملک کے سامنے اُن سبھی حالات کو بیان کیا جنہوں نے پرامن تحریک میں شامل اس جوان سال بچے کو حتمی قربانی کی جانب مائل کردیا۔ یاسین ملک کو بتایا گیا کہ یہ جوان پرامن تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں کئی بار پولیس کے ہاتھوں گرفتاری، ٹارچر اورتذلیل کا نشانہ بن چکا تھا اورمحض چند ماہ قبل ہی کورٹ بلوال جیل سے رہا ئی کے بعد یہ اپنی زندگی کو دوبارہ بحال کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔ انہوں نے یاسین ملک کو بتایا کہ عید الفطر سے ایک روز قبل یہ نوجوان دن بھر مشقت کرکے روزی روٹی کمانے میں مصروف تھا کہ اسے پولیس نے گرفتارکرکے تھانے پہنچایا جہاں اُس پر تشدد ڈھایا گیا۔ پولیس اسے مقتول ڈی ایس پی محمد ایوب پنڈت کے قتل کے بارے میں پوچھ تاچھ کے نام پر تھرڈ ڈگری ٹارچر سے گزار رہی تھی حالانکہ جس وقت ڈی ایس پی کے قتل کا واقعہ پیش آیا یہ جوان دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ پولیس کی تحویل میں ہی تھا۔اس موقع پر یاسین ملک نے کہا کہ کچھ ماہ قبل سجاد دوسرے کئی جوانوں کے ہمراہ خود ان کے پاس پولیس کے مظالم کی داستان لے کر آئے تھے جس کے بعد فرنٹ کی طرف سے بیانات بھی جاری کئے گئے تھے ۔بیان کے مطابق تفضل الاسلام کی کہانی بھی من و عن یہی ہے ۔ اُسے بھی 2010میں عوامی ایجی ٹیشن کے بعد سے فوج نے تنگ طلب کیا جس کی اس نے پولیس سے شکایت بھی کی تھی لیکن الٹا اسے گرفتار کیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ رہائی کے بعد بھی اس کے ساتھ پولیس کا رویہ وہی ریا اور بالآخر یہ نوجوان بھی حتمی قربانی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔یاسین ملک نے کہا کہ2008 کے بعد جب اس قوم نے اجتماعی طور پر پرامن جدوجہد کی جانب سفر ِ نو کا آغاز کیا تو پولیس اور بھارتی ایجنسیاں پھر اپنی پرانی روش پر لوٹ آئیں اور برہان وانی سے لیکرآج تک جو بھی وان اپنی جان کا نذرانہ پیش کررہا ہے، اُس کی کہانی پولیس کے جبر سے عبارت ہے۔