سید مصطفیٰ احمد
لوگ اس بات کو چہارسُو سنتے ہیں کہ نوجوان قوم کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔جھومر بھی کیا عجیب شئے ہےکہ انسان کے سر پر بیٹھ کر خوبصورتی میں چار چاند لگاتا ہے۔یہی وصف نوجوانوں پر ٹھیک بیٹھتا ہے۔وہ بھی خوبصورتی اور تہذیب کے محلوں میں اصل خوبصورتی کے اَن گنت باب کھولتے ہیں۔میں نے اپنے محدود مطالعہ کے دوران اس بات کا اعادہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے کہ نوجوانوں کی کامیابی پورے ملک کی کامیابی ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال بھی اسی بات کے قائل تھے۔نوجوانوں سے ہمارے باغوں میں رنگا رنگی ہے۔لیکن جب باغ کا رنگ ہی زرد پڑ جائے، تب اُس رنگا رنگی کیا حالت ہوگی! اس کا اشارہ ہمیں Kamala Das کی ایک نظم میں ملتا ہے جس میں وہ اپنی بوڑھی ماں کی روداد بیان کرتی ہوئی لکھتی ہے کہ اس کی جوان ماں کے چہرے پر اب جھریوں اور موت کے کالے سایے منڈلا رہے ہیں۔چمکتے ہوئے چہرے پر اب زردی اور بےبسی نے اپنے ڈھیرے ڈالے ہیں۔میں معذرت خواہ ہوں ،اگر یہ موازنہ معقول نہ لگا ہو، لیکن ادب سے اس نظم کا انتخاب کرنا میرے مضمون کی افادیت میں اضافہ کرسکتا ہے۔ قاریوں کا مزاج بھی ملحوظ رکھنا پڑتاہے اور سارے اطراف کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک منظم اور مضبوط تحریر کو الفاظ کی شکل میں ڈھالنا پڑتا ہے۔ مضمون کی طرف آتے ہوئے میں قاریوں کا دھیان اس بات کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ جیسے مندرجہ بالا نظم میں جوانی کی جگہ زردی نے پکڑی ہے،ٹھیک یہی حال آج کے بیشتر نوجوانوں کی ہے ۔میں نے کئی نوجوانوں کو ایک عجیب دَم گھٹا دینے والی اندرونی خاموشی کا شکار پایا ہے۔بالفاظ دیگر آج کل کے نوجوان الگ خاموش دنیا میں جی رہے ہیں۔ مزید برآں ایک ایسی مار ڈالنے والی خاموشی ان کو گھیرے ہوئی ہے کہ کوئی بھی ذِی حس انسان حالات کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔مانا کہ نوجوانی کا دور طوفانوں کا دور ہوتا ہے۔جذباتی ناپختگی کے علاوہ کم عمری بھی نوجوان کو خاموشی کی راہ پر گامزن کروا سکتی ہے لیکن اس کے برعکس اگر کوئی خاموشی قدرتی ہونے کے بجائے ایسے زخموں کی پیداوار ہو، جو اُس نوجوان کی روح پر مسلط کی گئی ہو اور روزانہ اس کے وجود پر کاری ضربیں لگاتی ہو،تودوسروں کی مسلط کی گئی خاموشی اپنے اندراتنا شور سموئے ہوئی ہے کہ ساری دنیا کی چُپ بھی اس شور کے سامنے ماند پڑ جائے،ایسی خاموشی جو گہرائی میںدبی ہوئی ہے، ایسی خاموشی جس میں موت اور فرسٹریشن کی بدبو آرہی ہے، ہڈیوں کو توڑنے والی یہ خاموشی نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے دیتی ہے۔خاموشی اور اندرونی شور کے ٹکراؤ کے بیچ میں نوجوان چکّی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کونسے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے طوفان سے پہلے کی خاموشی ہر جگہ اپنے ڈھیرے ڈالی ہوئی ہے۔مندرجہ ذیل سطروں میں کچھ وجوہات کا مختصر ذکر کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ ہے روشنی کی رفتار سے بھاگنے والی زندگی۔آج کی زندگی بھاگے جارہی ہے،اس بھاگم بھاگ میں بیشتر نوجوان کہی پیچھے رہ گئے ہیں۔وہ قافلے سے جدا ہوکر کہیں دور دشت و صحرا میںخیمے لگانے کی حالت میں بھی نہیں ہے۔گرم ہوائیں ان کے بچے کچے ملبوسات کو لوٹنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن ان کا قافلہ ان کی آنکھوں سے اوجھل کہیں دور اپنی مستی میں دوڑ رہا ہے۔ان حالات میں کسی نوجوان سے اس کی چُپ کی وجہ پوچھنا بےوقوفی کی انتہا کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔قافلے کی یادیں من کے زخم ہرے کررہی ہیں اور دوسری طرف اگلے قافلے کا کوئی نشان بھی نہیں دکھائی دے رہاہے، تو ایسے میں نوجوانوں کی زندگیوں میں خاموشی کے کالے بادل منڈلانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔دوسری وجہ ہے بےروزگاری۔اس نے بےروزگاری کے کفن میں آخری کیل کا رول ادا کیا ہے۔آج کی capitalist دنیا میں بےروزگاری کا مطلب ہے انسانیت کے لسٹ سے خارج ہونا۔جو نوجوان کمانے سے قاصر ہے، اس کا جینا مرنا ایک جیسا ہے۔اس کا مرنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ دنیا کے محدود وسائل کا اس کے جینے سے زیاں ہورہا ہے۔اس سے بہتر ہے کہ وہ مرجائے اور اس کے مردہ جسم سے قیمتی سامان نکال کر موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے آرام کے سامان مہیا رکھے جائیں۔بےروزگار نوجوان کی بری حالت کو Franz Kafka کی ناویلہ the Metamorphosis میں سمجھا سکتا ہے کہ کیسے پیسے کمانا کتنا ضروری ہے۔اس انسان کی تب تک ہی عزت کی جاتی ہے جب تک وہ چار پیسے کمانے کی حالت میں ہوتا ہے لیکن جس دن خدانخواستہ کس بھی وجہ سے وہ انسان اپنا روزگار کمانے سے محروم ہوجاتا ہے، اس دن اس کو دنیاوی رشتوں کی حقیقت کا اصلی ادراک ہوجاتا ہے اور پھر ایک ڈراونی خاموشی اس کے دامن سے چپک جاتی ہے۔پیسے کی پیاس اس کے گلے کو سوکھا کر دیتی ہے اور موت جیسے خاموشی اس کے وجود کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔تیسری اور آخری وجہ ہے تنگ ذہنیت کا حامل سماج۔علم کا تعلق اگر روزگار سے حتمی طور جوڑا جاتا ہے،تو اس کے سنگین نتائج نکل کر آتے ہیں۔تعلیم کا مقصد صرف پیٹ پالنا ہے،یہ حماقت جس قوم نے بھی کی ،وہ قوم ترقی کے نچلے پائیدان پر ہی براجمان رہے گی۔پیٹ کی آگ اور گلے کی پیاس کو تعلیم جیسی شئے کے ساتھ جوڑنا دیوانوں کے خواب کے مانند ہے۔ایک نوجوان تعلیم کی گہرائیوں میں جب اترنے لگتا ہے تب اسی وقت پیٹ کی جھلسا دینے والی آگ اس کے ارمانوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتی ہے اور اس کشمکش میں وہ ہار کر چپ سادھ لیتا ہے اور اس روایتی سماج کے اصولوں سے اس کو گھن آنی شروع ہوجاتی ہے۔وہ چاہ کر بھی کسی کو اپنے جذبات اور خیالات سمجھا نہیں سکتا ہے۔ان حالات میں خاموشی کے ڈھیرے عمر بھر کے لیے اپنا بوریا بستر بچھا دیتے ہیں اور پھر دنیا کے ہنگاموں سے یہ نوجوان نجات پانے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔
اب وقت کی اہم ضرورت ہے کہ نوجوانوں کے درد کا مداوا کیا جائے۔سب سے بنیادی قدم جو اس معاملے میں اٹھایا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ان کی حالت ِ زار پر بھاشن دینے
سے بہتر ہے کہ ان کے لئے کچھ ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔پُرسِش غم کے دوران ان سے غم میں اضافہ کرنے والے سوالات اور غیر ضروری تمثیلے منہ سے نکالنے سے بہتر ہوگا کہ پیار اور مٹھاس کے دو بول ہی بولے جائیں۔اس کے علاوہ والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی نوجوان اولاد کی فکر کریں۔ان کے ساتھ شفقت اور دانائی کے ساتھ پیش آئے۔ایک ہی گھر میں سکونت اختیار کرنے کے باوجود جو خلا والدین اور نوجوان اولاد میں پیدا ہوا، اس کو بھرنے کے لئے نہایت شائستگی کا لہجہ اپنانا ہوگا۔نوجوانوں کی خاموشی کو شور سے توڑنے کی حماقت بنائے ہوئے کام کو بگاڑ سکتا ہے۔اخلاقی پیراہن اوڑھ کر ادب و سلیقے کے اونچے معیار کو اپناتے ہوئے، بنا شور و غل کا راستہ اپنائے ہوئے نوجوانوں کے دلوں تک پہنچنے کی کوششیں ہی کارآمد ہوسکتی ہیں۔مزید برآں مذہبی رہنماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ نوجوانوں کی فکر کرتے ہوئے قرآن و سنت کے چشموں سے ایسے موتی تلاش کریں جن سے نوجوانوں کی زندگیوں میں نکھار آجائے۔ان پاک احادیث کا چار سو ورد کیا جائے جس سے حقیقی انسان بننے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔دکھ درد سے نکل کر انسان کیسے نکھر جاتا ہے، یہ دیگر مذہبی کتب کی روشنی میں واشگاف الفاظ میں بیان کیا جانا چاہئے۔حکومت کو بھی ایسا ماحول ترتیب دینا چاہیے، جس سے نوجوانوں میں امید کی کرن جاگ سکے۔تعلیمی اداروں میں مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مل کر پروگراموں کا انعقاد کیا جانا چاہئے جن میں زندگی کی خار دار جھاڑیوں سے کیسے نپٹا جاتا ہے اور اپنی حقیقی نشوونما کی معراج پر پہنچا جاتا ہے، جیسے مضامین پر بات ہونی چاہیے۔حالات نازک ہیں اور امداد کا سامان بھی بہت قلیل ہیں۔ملت کا روپ دھار کر ہم سب قوم کی فکر میں جٹ سکتے ہیں۔ہم سب کو اپنی انفرادی سطح پر بھی اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے فرائض کے ساتھ ساتھ قوم کے فرائض بھی ادا کرنے ہونگے۔جیسے کہ پہلے ہی اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ راہ کانٹوں سے بھری ہیں لیکن جوش اور ولولے کے ساتھ ہم نوجوانوں کی زندگیوں میں بہت کچھ تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!
رابطہ۔7006031540
[email protected]