نوجوانوں اور بزرگوں کے2رخ | کئی بوتھوں پر نوٹا اور من پسند امیدوار کے حق میں بٹن دبایا

بلال فرقانی

سرینگر//جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میںنوجوانوں نے’نوٹا‘‘ کو اپنا امیدوار قرار دیتے ہوئے ووٹ ڈالے تاہم بزرگوں نے کہا کہ سیاست دانوں کو ایک اور موقع دینا چاہئے۔ پہلگام کے بٹکوٹ کے نوجوانوں پہلے تذبذب میں تھے،تاہم بعد میں کئی نوجوانوں نے کسی بھی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ’ نوٹا‘ کو ووٹ دینگے۔ان کی علاقے کے بزرگوں کے ساتھ گرم گفتاری بھی ہوئی،جو انہیں اپنے اپنے مخصوص امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے قائل کر رہے تھے۔ان نوجوانوں نے کہا کہ ان کے علاقوں کی صورتحال ناگفتہ بہہ ہے اور انہوں نے ماضی میں تمام جماعتوں کو آزمایا۔مگر کوئی بھی انکے اعتماد پر کھرا نہیں اترا۔عامر نامی ایک نوجوان نے کہا کہ انہیں تلخ تجربہ حاصل ہے کہ وہ جب علاقے کی لائٹوں کیلئے متعلقہ حکام کے پاس گئے تو یہ جان کر انکے پائوں تلے زمین ہی کھسک گئی جب انہیں معلوم ہوا ہے کہ سیاسی کھڈپینچوں نے پہلے ہی یہ لائیٹیں حاصل کی ہے۔بٹکوٹ کے ایک اورنوجوان نے بھی اسی طرح کے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقوں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی نے انہیں کافی پریشان کر رکھا ہے۔ جنید نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ یہ سیاست دان صرف ووٹنگ کے وقت آتے ہیںاور باقی اوقات میں انکا پتہ بھی نہیں ملتا۔جنید کا کہنا تھا کہ انہیں تلخ تجربہ حاصل ہے اور اب جب وٹ دینا ہی ہے تو کیوں نہ تمام امیدواروں کو مسترد کرکے نوٹا کو ووٹ دیا جائے۔عشمقام کے پولنگ مراکز پر محمد جمیل نامی نوجوان نے کہا کہ وہ اب سیاست دانوں کے وعدوں سے اب واقف ہو چکے ہیں،اور انہیں تلخ تجربہ حاصل ہے کہ یہ سیاست داں آخر کسی کے نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا ’’پہلے میں نے سوچا کہ ووٹ نہیں دونگا تاہم بعد میں لگا کہ ووٹ ضائع نہ کیا جائے اور نوٹا کو اس بار موقعہ دیا جائے‘‘۔تاہم ان علاقوں کے بزرگوں کے تاثرات نوجوانوں سے مخالف تھے۔ان بزرگوں کا کہنا تھا کہ انہیں اسی معاشرے میں زندگی بسر کرنی ہیں اور انہیں سیاست دانوں کے پاس روزمرہ کے مسائل کو حل کرانے کیلئے جانا پڑتا ہے، اس لئے ووٹ ڈالنا ضروری ہے۔ کلن گوجرن میں شریف الدین کسانہ نامی بزرگ نے کہا کہ انہوں نے پہلے بھی ووٹ دئیے ہیں،اور آج بھی دے رہے ہیں،تاہم ماضی میںامیدواروں نے لوگوں کے ساتھ وفا نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ شائد اب سیاست دانوں نے سمجھنا شروع کیا ہے کہ انکی کامیابی کے پیچھے رائے دہندگان کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ گنیش پورہ کے پولنگ مرکز پر محمد شعبان نامی ووٹر نے بتایا کہ لوگوں کے پاس سیاست دانوں کے پاس جانے کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں ہے،اس لئے اپنے مخصوص سیاسی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنا لوگوں کا بھی حق ہے۔انہوں نے کہا کہ بے شک لوگوں کے توقع کے مطابق ترقی نہیں ہوئی،تاہم ان چیزوں سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جاسکتی کہ جو کچھ حاصل ہوا،وہ ان ہی سیاست دانوں کی دین ہے۔ کولگام کے نہامہ ووٹنگ مرکز کے باہر بشیر احمد نامی ووٹر نے کہا کہ انہوں نے صرف خود ووٹ ڈالا بلکہ25 کے قریب لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر مائل کیا۔ان کا کہنا تھا کہ قدم قدم پر ان ہی سیاس دانوں کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر آج ہم ان کے حق میں ووٹ نہیں ڈالیں گے تو کل کونسا منہ لیکر انکے پاس جائیں گے۔