امریکہ سے بغاوت کوئی آسان کام نہیں۔ امریکی باغیوں کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق کے ذریعے نشانہ عبرت بنایا گیا اور جنرل ضیاء ، کرنل قذافی اور صدام حسین بھی اسی طرح عبرت کا نشانہ بنے۔ ایٹمی دھماکوں پر میاں نواز شریف پہلے ہی ان کے نشانے پر تھے۔موقع کی تلاش تھی مگر وہ ایسے مارتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ کوئی عالمی طاقت کو یوں کیسے چیلنج کر سکتا ہے؟ اس کی مرضی کے خلاف کیسے کوئی فیصلہ کر سکتا ہے؟ اگر ایسا ہو تو یہ بغاوت سمجھی جاتی ہے۔ یہ کیسے ہو گا کہ امریکی اسلحہ فیکٹریوں کو نظر انداز کر کے چین سے دفاعی معاہدے کئے جائیں؟ امریکہ جو چین کو آج دشمن نمبر ون سمجھتا ہے، اسی چین کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری منصوبہ شروع کیا گیا، شاہراہ ریشم دوم کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی گئی،گوادر بندر گاہ پر چین کو رسائی ملی، امریکہ سے قرضہ اور اسلحہ لینے سے گریز کیا گیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ آ ج امریکہ اور مغرب میں موجود زیادہ تر پاکستانی شریف خانوادے کے خلاف محاذ سر گرم کئے گئے ہیں۔ اسی پس منظر میں حنیف عباسی کی سزائے عمر قید نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو تحفظ دیا ۔جسٹس صدیقی صاحب نے جو کچھ کہا اس پر بار ایسو سی ایشنز کا ملا جلا رد عمل سامنے آ یا۔ سپریم کورٹ بار نے اپنی ایگزیکٹو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس 27؍جولائی کو طلب کیا ، سوال یہ ہے کہ اگر عدلیہ میں مداخلت کی جا رہی ہے تو الیکشن کمیشن بھی اس مداخلت سے کیسے بچ سکتا ؟ نگران حکومتوں کی کار گزاری بھی متاثر ہو ئی۔ الیکشن ڈیوٹی پر تعینات فوج کو مجسٹریٹ کے اختیارات دینے پر پتہ نہیں سیاست دان کیوں خاموش رہے، جب کہ جس کسی نے قانون ہی نہیں پڑھا ، اُسے جوڈیشل اختیارات کیونکر دئے جا سکتے، اگر چہ وہ کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار یا نائب تحصیلدار ہی کیوں نہ ہو؟ ظاہر ہے کہ قاعدے کے مطابق ایسا اس لئے ہے کہ جو قانون نہیں جانتا ہو، جسے قانون اور آئین کا علم نہیں ہو، وہ فیصلہ کیسے صادر کرے ؟ اگر اسے فیصلے کا اختیار دیا جاتا ہے تو یہ فیصلہ عدل و انصاف کے بنیادی تقاضوں کو کیسے پورا کرے گا؟ الیکشن سے دو دن پہلے قومی اسمبلی کے مضبوط امیدوار کو سزا دینے کا شبانہ فیصلہ ایک نیا تاثر پیدا کر گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ عدل و انصاف کی غیر جانب داری پر نئے سوالاتپیدا ہوناحق بجانب ہیں۔عدالتی فیصلوں سے پہلے ہی عمران خان اور شیخ رشید صاحب نے فیصلے صادر کئے، اورجس سے ظاہر ہوا کہ وہ سیاسی نجومی ہونے کے ناطے مستقبل کی سیاسی کروٹوںکے بارے میں بخوبی علم رکھتے ہیں۔ علم نجوم یا علم فلکیات یا دست شناسی کے طرز پر پیش گوئیاں کیا مطلب رکھتی ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری کی طرف سے بھارتی اخبار کو دئے گئے انٹرویو میں پی ٹی آئی کی کامیابی اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی پیش گوئی پربھی سوال اٹھ سکتے ہیں ۔’’ مسلم لیگ کی نشستیں پی ٹی آئی سے کم ہوں گی‘‘ نگران وزیراعلیٰ کا یہ بیان انتخابی دھاندلی کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں، اس بارے میں قانونی ماہرین انگشت بدنداں ہیں۔ ووٹر کو پہلے دن سے یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان ہی وزیراعظم ہوں گے، اس لئے کوئی اپنا ووٹ ضائع نہ کرے۔ بایں ہمہ کلثوم نواز کو بستر مرگ پرچھوڑ کر میاں نواز شریف اور مریم نواز کا پاکستان آ کر قید وبند قبول کرنا پاکستان کی تاریخ میں غیر معمولی واقعہ ہے۔
آج پی ٹی آئی کا ستارہ ٔ اقبال چمک رہاہے مگر وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ اگر سیاسی یا حکومتی سطح پر کوئی کرپشن ہوئی ہے، اس کی سزا مجرم کو ملنی چاہیے۔ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہیے۔ ایک ہی نوعیت کے جرم میں کسی کو سزا اور کسی کو کھلی چھوٹ دینامضحکہ خیز ہوتا ہے۔ بہر حال اب زمانہ کی آنکھ عمران خان کا مشاہدہ کرے گی کہ وہ کیسی حکومت قوم کو دیتے ہیں ۔ نئی حکومت کو عام آدمی کے روز مرہ مسائل حل کر نے کے ساتھ ساتھ بھاری قومی ذمہ داری بھی نبھانی ہوں گی۔ ملک کی سلامتی، دفاع، خوشحالی اور ترقی تب ہو گی جب بیرونی ڈکٹیشن کے بجائے آزاد خارجہ پالیسی بنے۔ اپنے قومی فیصلے امریکہ ، سعودی عرب، چین کے دبائو کے بجائے پارلیمنٹ میں ہوں تو بات بنے۔ پہلے یہ سنائی دیتا تھا کہ لوگ فیکٹریاں بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں منتقل کر رہے ہیںلیکن گزشتہ برسوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی فضا بنی تھی، سرمایہ کار کا اعتماد بحال ہوا تھا، دہشت گردی تقریباً ختم ہوئی تھی، سی پیک نے محنت کشوں کو روزگار بھی دلایا اور اعتماد بھی ، ملکی ترقی کا پہیہ چل پڑا تھا، معیشت سنبھلی تھی،اس پیش رفت پر امریکہ اور اس کے حواری بوجوہ بوکھلا اٹھے مگر نواز شریف نے اغیار کی خوشنودی کے لئے سی پیک کو رول بیک نہ کیابلکہ پاکستان کے مفاد ات کو اولین اہمیت دی۔ حالانکہ امریکا نے اپنی کٹھ پتلیوں کو میدان میں لایا جنہوں نے مختلف حیلے بہانوں سے قوم کو منتشر کیا ۔ ان حوالوں سے نئی حکومت کو ترقی اور امن وامان کا پہیہ مزید سرعت کے ساتھ گردش میں لانا ہوگا۔ پاک چین گرم جوشانہ تعلقات سے آج سب سے زیادہ پریشان کون ہے؟ سی پیک سے کون خطرم محسوس کرتا ہے؟ گوادر کس کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹکتا ہے؟ شاہرائے ریشم دوم اور ون روٹ ون بیلٹ سے کون خوف کھاتا ہے؟چین کے صدر شی جین پینگ کے دورہ پاکستان کو کس نے سبوتاژ کیا تھا؟ ان نکات پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ نواز شریف نے دسمبر 2015کو نریندر مودی کا لاہور میں اپنے گھر پر استقبال کیا،اپریل 2017کو مری میں بھارتی سٹیل انڈسٹری کے ٹائیکون اور گرپ آف کمپنیز کے سربراہ سجن جنڈل کے ساتھ میٹنگ کی، اس سلسلے میں پیشگی طور سب کو اعتماد میں لینا ضروری تھا۔ یہ من مانی بھی نواز شریف کے زوال کا باعث بنی ہو گی مگر سب سے اہم چین کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبے پر عمل در آمد اور امریکہ سے دوری نواز شریف کے سیاسی زوال کا موجب ہو ئی۔ الیکشن کے دوران دہشت گردی کے خون خوار واقعات نے سی پیک کے لئے بھی خطرات پیدا کئے ہیں۔ اب مسلم لیگ ن اقتدار سے محروم ہو گئی ہے مگر سی پیک کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانا نئی حکومت کا کام ہوگا ۔اس ضمن میں عمران خان کو نواز شریف کی طرح بے خوف ہوکر امریکی ڈکٹیشن مسترد کر نا ہوگا۔ وگر نہ یہ سمجھا جائے گا کہ صرف مسلم لیگ ن کو ہٹا نا پی ٹی آئی کا نصب العین تھا نہ کہ قومی خدمت سر انجام دینا۔