Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

نواب دین کسانہ کا ’’پیغام‘‘

Towseef
Last updated: August 31, 2024 12:25 am
Towseef
Share
10 Min Read
SHARE

تبصرہ

سبزار احمد بٹ
اردو زبان و ادب کی خوش نصیبی کہ آئے زور اس زبان کے شیدایئوں میں خوش آئند اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس زبان کو اگر چہ کئی بار چوٹ بھی پہنچائی گئی تاہم یہ ایک ایسا چراغ ہے جو اللہ کے فضل و کرم سے روشن سے روشن تر ہوتا جائے گا ۔زیر تبصرہ کتاب بھی ایک ایسے شخص کا کارنامہ ہے جو بظاہر غیر ادبی اور غیر تدریسی شعبے سے وابستہ ہیں اور جو ایک زمیندار باپ کے بیٹے ہیں ۔ جی ہاں میری مراد جناب نواب دین کسانہ سے ہے جو جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروس سے منسلک ہیں، جنہیں اردو ادب میں کسی کی رہنمائی نصیب نہ ہوئی سوائے پرکاش پریمی کے جو کہ اردو کے نہیں بلکہ ڈوگری زبان کے ایک نامور ادیب ہیں ۔ اس بات کا اظہار نواب دین کسانہ نے برملا طور پر اپنی کتاب کےپیش لفظ میں کیا ہے ۔ محکمہ مال سے منسلک ہونے اور بغیر کسی کے موصوف نے اردو ادب کی خدمت کا سہرا اپنے سر لیا ہے۔ موصوف رقمطراز ہیں کہ’’ اس سفر میں نہ کوئی ہمسفر نہ کوئی رہبرملا، نہ کوئی قافلہ اور نہ کوئی منزل ملی ۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ موصوف نے پیش لفظ میںایسے بھی چند بیانات ادب کی مقصدیت کے حوالے سے قلمبند کئے ہیں، جن سے میری آنکھیں کھل گئی اور مجھے ادب کے اصل مقصد کا پتہ چلا ۔طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو وہ بیانات ضرور آپ کی خدمت میں پیش کرتا ۔ موصوف پچھلے کئی سالوں سے افسانے لکھ رہے ہیں اور ان کے افسانے روزنامہ ہند سماچار ، کشمی عظمیٰ، لازوال، اڈان ،ماہنامہ زریں شعاعیں میں چھپتے آئے ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب میں موصوف کے 27 افسانے شامل ہیں اور ہر افسانہ قاری کو کوئی نہ کوئی پیغام ضرور دیتا ہے، شاید اسی مناسبت سے افسانوی مجموعے کا نام ’’پیغام‘‘ رکھا گیا ہے ۔ ہر افسانے میں معاشرے کی کسی نہ کسی بے حسی پر بڑی خوبصورتی سے چوٹ کی گئ ہے ۔ افسانہ ’’فرشتہ‘‘ کو ہی لیں، جس میں مصنف نے اور باتوں کے علاوہ یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی انسان کو کمتر یا حقیر نہیں سمجھنا چاہیے ۔ ڈاکٹر راما کانت اور اس کے ساتھی بظاہر تو پڑھے لکھے لوگ نظر آتے ہیں لیکن ایک بڑھیا کو کمتر سمجھ کر ہسپتال احاطے سے باہر نکال دیتے ہیں بعد میں اس کا کرتب دیکھ کر سب کے سب حیران رہ جاتے ہیں ۔افسانہ ’’دیواریں‘‘ بہترین افسانہ ہے ۔ملک میں پھیلنے والے مذہبی فسادات کی اس قدر منظر کشی کی گئی ہے کہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہو ۔ یہاں تک کہ ایک فقیر بابا لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ ہماری روایت تو خون خرابے کی نہیں ،بھائی چارے کہ رہی ہے یقین نہیں آتا تو تاریخ اٹھا کر دیکھ لو۔بابا کی باتیں سن کر سب کے ہاتھوں سے ڈنڈے اور پتھر گر گئے اور نعروں کی آوازیں، سسکیوں میں بدل گئیں ۔افسانہ ’’کاش ‘‘میں بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور اس کے عبرتناک انجام کو پیش کر کے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو عبرتناک سزا دی جانے چاہئے،تاکہ باقی لوگ سبق حاصل کر سکیں۔افسانہ ’’کندے‘‘میں رشوت خور فارسٹ فارڑ کی کہانی پیش ہوئے ہے لیکن افسانہ نگار نے دراصل فارسٹ گارڈ کی آڑ میں ہر اس سرکاری ملازم پر چوٹ کی ہے جو رشوت کا مرتکب ہوتا ہے ۔ ہر رشوت خور کو اس فارسٹ گاڑ کے کردار میں اپنا کردار نظر آئے گا ۔افسانہ نگار نے اپنے اکثر افسانوں کا آغاز اپنے ارد گرد کے ماحول اور موسمی حالات سے کیا ہے اور موصوف اپنے افسانوں کو حقیقت کے اتنا قریب لانے میں کامیاب ہوا ہے جہاں ایسا لگتا ہے کہ نواب دین کسانہ خود ان افسانوں کے کردار ہیں ۔ افسانہ ’’نکل گئی ہوا غبارے سے‘‘ کےذریعے بھی مصنف نے شاندار پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ایک لڑکی کا اپنے باپ کی عمر کے شخص سے ڈر جانا اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ آج کا مرد اپنی اوقات کھو چکا ہے اور آج کی بیٹیوں کو مرد نام سے ہی ڈر لگتا ہے ۔ چاہے وہ اُن کی باپ کے ہی عمر کا کیوں نہ ہو ۔ دراصل آج کا مرد یہ بھول چکا ہے کہ صرف مرد ہونے سے پہلے ایک بیٹا، بھائی، اور ایک باپ بھی ہے ۔ اس افسانے میں موصوف نے آج کے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ ’’سب سے بڑا روپیہ‘‘ میں مصنف نے رشتوں کی پامالی کا رونا رویا ہے۔ اس افسانے میں نہ بیٹا باپ کا رہتا ہے اور نہ باپ بیٹے کا ۔ بلکہ سب پیسوں کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کی ایک حقیقت ہے ۔ہمارے معاشرے میں حسد نام کی روحانی بیماری بھی ایک وباہی صورت اختیار کر چکی ہے ۔ ہم سے تو ایک دوسرے کی ترقی دیکھی نہیں جاتی اس موضوع پر ’’بغض ‘‘نام کا ایک شاندار افسانہ بھی مجموعے میں شامل ہے۔ افسانہ ’’غارتگر‘‘اگر چہ کافی طویل ہے لیکن اس میں بگڑتے ماحول کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ہر ایک افسانے پر بات کرنا ممکن نہیں ہے۔

نواب دین کسانہ کی زبان بہت ہی آسان اور صاف ہے اور ان کا کوئی بھی افسانہ پڑھنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑھ رہا ہے ۔ اگر چہ اکثر افسانوں میں بر محل تشبیہات، استعارات اور اشعار کا خوب استعمال کیا گیا ہے ۔ افسانوں میں منظر کشی اور مکالمے اور کہیں کہیں پر ظرافت کے بہترین نمونے ملتے ہیں ہاں مگر چند افسانوں میں طوالت کا پہلو غالب آجاتا ہے ۔چونکہ افسانے کا بنیادی اصول اختصار ہے لہٰذا یہ طوالت کہیں کہیں پر بوجھ لگتی ہے۔

نواب دین کسانہ کو شاعری کا بھی شوق بلکہ شغف ہے اس بات کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے جابجا پیش کئے ہیں اپنی بات کو مزید مظبوط اور مستحکم بنانے کے لیے ۔ بلکہ ان اشعار سے شعری مجموعے میں ایک قسم کا حسن پیدا ہو گیا ہے۔ شاید ہی کوئی افسانہ ہوگا جس میں اشعار کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔ افسانوں کے موضوعات قدرے نئے اور منفرد ہیں ۔ کہانیوں میں روانی ہے اور کہیں پر بھی الجھاؤ نہیں ہے ۔ ان کی کہانیوں سے پاکیزگی جھلکتی ہے اور کہیں پر بھی عریانیت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا ۔

موصوف کے اس افسانوی مجموعے پر نور شاہ، اسیر کشتواڑی، پرویز مانوس اور ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جس سے ادبی دنیا میں نواب دین کسانہ کی اہمیت اور بھی مسلم ہو جاتی ہے ۔نور شاہ لکھتے ہیں کہ ’’ نواب دین کسانہ کے افسانوں کی زبان رواں دواں ہے ان افسانوں میں جھانکتے ہوئے کبھی مٹھاس اور کبھی تلخیوں کا احساس ہوتا ہے ،ان افسانوں میں مقامی رنگ ملتا ہے انسانی بلندیاں اور انسانی پستیاں ملتی ہیں۔‘‘پرویز مانوس لکھتے ہیں کہ ’’ کسانہ صاحب کی کہانیوں میں کلاسیکی رنگ ملتا ہے جو ہمیں دیہات کے گوشوں کی سیر کراتا ہے اور ان اقدار کی یاد دلاتا ہے جسے نئی نسل رفتہ رفتہ فراموش کرتی جا رہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی لکھتے ہیں کہ’’نواب دین کسانہ ایک مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والے افسانہ نگار ہیں۔ اُن کے لئے افسانہ نگاری صالح اور پُر امن جذبات و احساسات کی ترسیل کا ایک موثر ذریعہ ہے ۔ چنانچہ ان کے ہر افسانے میں ساجی خرابیوں کا ذکر ان کی تعمیری سوچ کے ساتھ قاری کے سامنے آتا ہے۔‘‘منجملہ طور پر دیکھا جائے تو نواب دین کسانہ کا یہ افسانوی مجموعہ اردو ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہےاور امید یہی کی جا سکتی ہے کہ موصوف اسی طرح سے لکھتے رہیں گے ۔
رابطہ۔7006738436
[email protected]
??????????????

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ہندوستان میںکاروباری اختراع کاروباری رہنماؤں اور کل کے مفکرین کے کندھوں پر :منوج سنہا | جموں و کشمیر تعلیم اور اختراع کا بڑا مرکز بن کر ابھرا لیفٹیننٹ گورنر کا آئی آئی ایم جموں میں اورینٹیشن پروگرام کے اختتامی اجلاس سے خطاب
جموں
ڈی کے جی سڑک پر لینڈ سلائیڈنگ، گاڑیوں کی آمد و رفت متاثر
پیر پنچال
کویندر گپتا نے بطور لیفٹیننٹ گورنر لداخ حلف اٹھایا کہا لداخ کی مساوی ترقی یقینی بنانے کیلئے مل کرکام کرینگے
جموں
خطہ چناب میں سرگرم ملی ٹینٹ گروہوں اور اُن کے معاون نیٹ ورک کامکمل خاتمہ ضروری ملی ٹینٹ گروپوں کا مکمل صفایا کیا جائیگا | پولیس سربراہ کا ڈوڈہ، کشتواڑ و رام بن میں سیکورٹی صورتحال اور انسداد ملی ٹینسی آپریشنز کا جائزہ
خطہ چناب

Related

کالممضامین

افسانوی مجموعہ’’تسکین دل‘‘ کا مطالعہ چند تاثرات

July 18, 2025
کالممضامین

’’تذکرہ‘‘ — ایک فراموش شدہ علمی اور فکری معجزہ تبصرہ

July 18, 2025
کالممضامین

نظموں کا مجموعہ ’’امن کی تلاش میں‘‘ اجمالی جائزہ

July 18, 2025
کالممضامین

حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ؟ ہمارا معاشرہ

July 18, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?