اشرف ملہ
ہر شے پر سے شبنمِ بے نو‘ــــــر روز کی طرح اوجھل ہونے کو تھی۔ پرندے آمدِ صبح کے گیت اونچے ، بکھرے اور سہمے سروں میں کو بہ کو گنگنا رہے تھے۔ سورج کی کرنیں کمرے کی کھڑکی سے جوں ہی عاصم کی آنکھوں سے جا ٹکرائیں، اُسکا یند سے طویل ربط چشمِ زدن میں ٹوٹ گیا۔ عاصم بستر سے اُٹھنے ہی والا تھا کہ اچانک اُسکی نظر میز پر رکھے ہوئے اخبار پر جا پڑی۔ چند نمایاں سرخیوں کا نظر سے گزرنا ہی تھا کہ فوراًـــــــــــــ اخبار ہاتھوں میں اُٹھا لیا اور بلا توقف پڑھنا شروع کیا ۔ اچانک کچھ دیر بعد اُسکے لب تھرتھرانے لگے، ماتھا پسینے میں غرق ہونے لگا۔ زیرِ مطالعہ خبر کا اثر تھا کہ تحریر شدہ ایک ایک لفظ خنجر کی طرح اُسکے دل و دماغ پر پے در پے وار کرنے لگا۔ اخبار کے صفـحـہـ اول پر شائع شدہ اِس خبر نے عاصم پر دل دوز ہیبت طاری کر دی ۔ـــ عاصم کی آنکھیں دیکھتے دیکھتے پتھرا گئیں، جسم صورتِ برف منجمد ہونے لگا اور پیروں تلے زمین بھی تیزی سے کھسکنے لگی۔ اسی دوران اُس کے چاروں طرف تاریکی خیمہ زن ہو گئی ۔۔۔ عاصم اپنی بے بسی کی تاب نہ لاکر بس زور زور سے رونے لگا اور ہاتھ مَل کر فریاد کرنے لگا۔۔۔”ـــــامیـ! امی! میں زندہ ہوں نا ! ابو میں یہیں ہوں نا۔۔۔یہ خبر جھوٹ ہے ۔۔۔! ”
شلوت، سمبل سوناواری، بانڈی پورہ
موبائل نمبر؛7889440347