سرینگر//سال2003کے نندی مرگ قتل عام اور دیگر واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے کہا ہے کہ پچھلے20سال کے دوران ریاستی اور غیر ریاستی طاقتوں کی طرف سے کئے گئے قتل عام کی دوبارہ تحقیقات کیا جائے۔ جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے نندی مرگ میں قتل عام کی 14برسی پر کہا کہ پکے شواہد کی عدم موجودگی کی وجہ سے پہلے دو ملزم بری ہوگئے ہیں جبکہ ایک ملزم کے بارے میں بھی کوئی پکے شواہد موجود نہیں ہے۔ جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نامعلوم بندوق برداروں نے 23اور 24مارچ کی درمیانی رات کو 12خواتین ، 2بچوں سمیت 24کشمیری پنڈتوں کو شوپیاں کے نندی مرگ میں جان بحق کیا تھا۔ مقتول کشمیری پنڈتوں نے سال 1990میں کشمیر میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی۔نندی قتل عام کے بعد دیگر کشمیری بنڈت بھی وادی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ عینی شاہدین اور سوگواران کے مطابق 10سے زائد نامعمول بندوق بردارجو فوجی وردی میں ملبوس تھے اور ہاتھوں میں خود کار ہتھیار لئے ہوئے نندی مرگ شوپیاں میں کشمیری پنڈتوں کے گھروں میں داخل ہوئے تمام کشمیری پنڈتوں کو تلاشی کیلئے گھروں سے باہر آنے کا حکم دیا اور کشمیری پنڈتوں کو بتایا تھا کہ گائوں میں جنگجووں چھپے بیٹھے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ قتل عام کے دن گھروں میں داخل ہونے سے قبل نامعلوم بندوق براداروں نے پنڈتوں کی حفاظت پر مامورپولیس والوں کے ہتھیار چھین لئے تھے اور انہیں گارڈ روم میں بند کیا تھا۔ عینی شاہدین اور سوگواران کے مطابق کشمیری پنڈتوں کو بندوق کی نوک پر گھروں سے باہر نکالا گیا تھا اور پولیس گارڈ روم کے باہر جمع کرکے 24کشمیری پنڈتوں کو موقع پر ہی ہلاک جبکہ کئی کو زخمی کردیا تھا تاہم کچھ کشمیری پنڈت جان بچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ہتھیار بند نامعلوم بندوق برداروں نے کشمیری پنڈتوں کے مکانوں سے لاکھوں روپے نقدی اور سونے کے زیور لیکر فرار ہوگئے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ نندی مرگ قتل عام کے سلسلہ میں 24مارچ 2003کو ایک ایف آئی آر نمبر 24/2003زیردفع 302,450,395,120-B,427PRC 7/27زینہ پورہ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ماہ بعد 18اپریل 2003کو ضلع کلگام میں جھڑپ کے دوران تین جنگجووں کو ہلاک کیا گیا جن پر بی ایس ایف نے نندی مرگ قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ بی ایس ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے مارے گئے جنگجووں کے قبضے سے نندی مرگ قتل عام کے دستاویزات ضبط کی تھیں جبکہ پولیس نے اس ضمن میں ضلع سیشن کورٹ پلوامہ میں 2دسمبر 2003کو چارج شیٹ داخل کی اور ملزم ضیا مصطفی نامی پاکستانی جنگجو اور کلگام میں مارے گئے تین جنگجووں اور 7پولیس والوں کو واقع کیلئے ذمہ دار ٹھرایا تھا تاہم پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے جنگجو نے عدالت کو بتایا کہ اسوقت وہ اننت ناگ میں سپیشل آپریشن گروپ کے پاس زیر حراست تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے بعد میں ملزم قرار دئے گئے پولیس والوں کو رہاکردیا جن پر دفعہ 302کے تحت قتل کا الزام لگایاگیا تھا تاہم عدالت نے انہیں پولیس ایکٹ کے تحت بزدلی کا مظاہرہ کرنے کا قصوروار ٹھرایا ۔مذکورہ کیس پچھلے 14سال سے عدالت میں زیر سماعت ہے اور قتل عام میں مارے گئے لوگوں کے لواحقین کو انصاف نہیں ملا ہے جنکے کنبے قتل عام کے بعد وادی چھوڑ کرچلے گئے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں زیادہ اقلیتی طبقے کے قتل عام سال1996کے بعد پیش آئے جب ریاستی انتظامیہ نے جنگجو مخالف نظام مضبوط کرکے حکومتی حمایت والی تنظیم اخوان اور سپیشل ٹاسک فورس کو وجود میں لایا جس کے بعد اسکو سپیشل آپریشن گروپ اور ولیج ڈیفیش کمیٹیوں میں تبدیل کیا گیا ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ان گروپوں کے وجود میں آنے سے سخت فوجی جماو کا آغاز ہوا ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اس گھناونے جنگ کی خصوصی آپریشنوں میں نوجوانوں کو لاپتہ کرنا اور پہلگام میں سال 1995میں 5سیاحوں کا اغوا شامل ہے جو بعد میں ثابت ہوگیا کہ وہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا کام تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ نندی مرگ قتل عام اقلیتوں کے دیگر قتل عام کی طرح مثلا چھٹی سنگھ پورہ میں پاکستانی اور کشمیر جنگجووں کو ملوث ٹھرایا گیا مگر ان قتل عام کے پیچھے چھپے سچ کھبی سامنے نہیں آئے۔ چھٹی سنگ پورہ میں دو پاکستانی شہریوں کو عدالت نے بری کردیا ہے۔ نندی مرگ قتل عام صرف ایک ہی شخص الزامات کا سامنا کررہا ہے اور عدالت کے مطابق اس کے خلاف بھی زیادہ ثبوت موجود نہیں ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ بھی الزامات سے بری ہوجائے گا اور اسلئے کولیشن آف سول سوسائٹی تمام قتل عاموں کی معتبر تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے کہ پچھلے 20سال میں ریاستی اور غیر ریاستی تنظیموں نے ہلاکتیں کی ہے انکی تحقیقات کی جاسکے۔