طارق منور
دامنِ کہسار پر مٹی کی دیواروں اور لکڑی کی چھت سے بنا ایک چھوٹا سا گھروندا تھا۔ اس کے آنگن کے پہلو میں ایک ندی بہتی تھی، جس کا پانی شیشے کی طرح شفاف تھا۔ صحن کی سرحد پر رنگ برنگے پھولوں کا جنگل جھوم رہا تھا۔ چاندنی میں ندی کے کنکر ہیرے اور لعل کی مانند چمک رہے تھے۔ ان کنکروں سے اٹھنے والی پرتو نے اردگرد کے ماحول کو ایک روحانی روشنی میں نہلا دیا تھا۔
اسی روشنی کی ایک کرن جب مکان کی پیشانی سے ٹکرائی تو میری نگاہ ایک پرانی تختی پر پڑی، جس پر لکھا تھا:
“بیٹا، کب تلک لوٹ آؤ گے؟”
میرے بدن میں ایک لرزہ سا دوڑ گیا۔ میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا اس جنت نما منظر کو آنکھوں کے قفس میں قید کئے جا رہا تھا۔ فضا میں سکون، راحت اور گداز گُھلا ہوا تھا، مگر اس تختی کے الفاظ نے میرے دل کے سکوت میں اضطراب بھر دیا۔ میں آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا۔
آنگن کے قریب پہنچا تو دھیمی سسکیوں نے میرے سکون کے پردے چاک کر دیئے۔ میں چونک گیا۔ دائیں بائیں نظریں دوڑائیں مگر کوئی دکھائی نہ دیا۔ سسکیوں کی آواز اب اور قریب سے آنے لگی۔ چند قدم آگے بڑھا تو ایک چھوٹا سا دریچہ نظر آیا، جس کے پیچھے ایک ضعیف عورت بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی۔
میں نے دھیرے سے پوچھا:
’’اماں، اس وقت رات گئے آپ کیوں رو رہی ہیں؟ کوئی تکلیف ہے کیا؟‘‘
وہ کچھ بول نہ سکی۔ بس آنسو بہاتی چلی جا رہی تھی۔ غم کے بوجھ نے اس کے نحیف بدن کو جھکا دیا تھا۔ چہرہ زرد، ہونٹ خشک، جیسے مدتوں سے پانی کی ایک بوند نہ پی ہو۔ میں نے دوبارہ نرمی سے کہا:
’’اماں، بتائیے نا، کیا بات ہے؟ میں بھی تو آپ کے بیٹے جیسا ہوں۔‘‘
بس یہ کہنا تھا کہ اس کے آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی، بدن کانپنے لگا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔
میں جلدی سے اندر داخل ہوا۔
ہائے میرے اللہ… یہ کیا!
ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں غموں کا جہان سمٹ آیا تھا۔
کمرے کے کونے میں ایک سفید ریش، نہایت کمزور اور ضعیف بزرگ لب ہلا رہے تھے۔ میں قریب گیا۔ آواز اتنی دھیمی تھی کہ کان بھی سن نہ پائے۔ میں نے ان کے ہونٹوں کے قریب ہو کر سنا۔ وہ آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے:
’’میرا جگر… میرا سہارا… میری آنکھوں کا نور… میرے دل کا سکون… بیٹا، تم کہاں ہو؟ دیکھ، ایک مدت سے تیرا باپ اور تیری ماں تیرے انتظار میں بوڑھے ہو گئے ہیں…‘‘
میرے آنسو بے اختیار بہنے لگے۔ ان کے الفاظوں نے میرے وجود کو لرزا دیا۔ میں نے ماں کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ وہ ہوش میں آئی، کچھ پانی پیا، اور بمشکل بولی:
’’بیٹا، تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟‘‘
میں نے کہا:
’’اماں، میں بس پہاڑی پر فطرت کے نظارے دیکھنے آیا تھا۔ اچانک آپ کا گھر دیکھا جو بہت خوبصورت لگا، تو دل نے مجھے یہاں آنے پر مجبور کیا۔‘‘
وہ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بولی:
’’خوبصورت؟ خاک کا خوبصورت؟‘‘
میں نے نرمی سے کہا:
’’اماں، سچ کہتا ہوں، آپ کا گھر دلکش ہے، اس میں ایک روشنی سی ہے۔‘‘
اماں نے آہ بھری:
’’بیٹا، جس محفل کا میرِ محفل نہ ہو، وہ محفل ہی کیا۔ جس پروانے کی شمع بجھ جائے، اس کی زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ اور جس گھر کا سکون، چین اور رونق غم کے پردوں میں چھپ جائے، وہ گھر نہیں، کھنڈر بن جاتا ہے… ہماری طرح ویران و سنسان…‘‘
میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
پھر وہ بولی:
’’بیٹا، یہ جو کونے میں ضعیف شخص تم دیکھ رہے ہو، میرا میاں ہے۔ کبھی کتنا صحت مند، خوش شکل اور محنتی تھا۔ بستی کے لوگ اس کی بہادری پر رشک کرتے تھے۔ مگر اب دیکھو، یہ خود اپنے سامنے بیٹھے انسان کو نہیں پہچان سکتا۔ غم انسان کو کھا جاتا ہے، بیٹا…‘‘
میں نے نرمی سے کہا:
’’اماں، کیا میں آپ کے اس درد میں شریک ہو سکتا ہوں؟‘‘
وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر میرا سر اپنی آغوشِ شفقت میں لے کر بولی:
’’چلو ٹھیک ہے، شاید تم سے بانٹنے سے میرا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے…‘‘
پھر وہ کہنے لگی:
’’ہمارے بیاہ کے چند سال بعد اللہ نے ہمیں ایک بیٹے کی صورت میں خوشی عطا کی۔ ایسا حسین اور دلکش بچہ کہ لگتا تھا سارے دکھوں کا مداوا ہو گیا۔ ہم دونوں نے اپنی ساری خواہشیں قربان کر کے اس کی ایک ایک چاہت پوری کی۔‘‘ وقت گزرتا گیا، وہ جوان ہوا، — سادہ، باحیا اور بااخلاق۔ ایک دن اپنے باپ کی کمزوری دیکھ کر بولا:
’’اماں، مجھ سے بابا کی ضعیفی نہیں دیکھی جاتی۔ میں ایک کمپنی میں کام کرنے کیلئے جا رہا ہوں۔ آپ فکر نہ کریں۔ آپ کا بیٹا آپ کا غلام ہے، ہمیشہ خوش رکھوں گا۔‘‘
اور پھر وہ چلا گیا… جاتے جاتے بار بار پیچھے مڑ کر ہمیں دیکھتا رہا۔ ’’ہائے، وہ آخری نظر! جیسے آخری ملاقات ہو۔ تب سے آج تک ہم اسی کے لوٹ آنے کے منتظر ہیں۔ دس برس گزر گئے… نہ کوئی خط، نہ کوئی خبر۔ پتہ نہیں زندہ بھی ہے یا…‘‘
اماں کی آواز رندھ گئی۔
میں نے آہ بھری اور آہستہ سے کہا:
’’اماں، آج ہم تینوں منتظر ہیں… اس بھائی کے…‘‘
���
ہردوشورہ ٹنگمرگ، بارہمولہ کشمیر