کمیونسٹ روس کی آغوش سے جب کئی مسلم ریاستیں ہنستی مسکراتیں ،دھوم مچاتیں ،شادیانے بجاتیںاور موحدانہ گیت گاتیں معرض وجود میں آگئیںتو ملحدوں کے سر شرمندگی اور تاسف سے جھک گئے اور انہوں نے اتنی ٹھنڈی آہیںبھریں کہ اُس متاسفانہ نالہ وشیون سے کارل مارکس کا ایستادہ بت بھی سرنگوں ہوگیا ۔اتنے بڑے سیاسی انقلاب سے عالمی سیاست دانوں ،مفکروں اور دانشوروں کی سوچ اور فکر اس بات پر منتج ہوگئی کہ اب کمیونزم کے زوال کے بعد عالمی طاقتوں اور سُپر پاور ممالک کا اگلا ہدف اسلام ہوگا ۔اُن کے خیال و تفکر کے مطابق یہود ؔ ،نصاریٰؔ اور ہندوؔ مل کر مسلمانوں کے خلاف عالمی پیمانے پر جنگ شروع کریں گے اور اُن کی حتی المقدور کوشش یہی ہوگی کہ مسلمان دنیا سے نیست و نابود ہوجائیں ۔۔۔۔اور اگر کسی وجہ سے نہ بھی ہوجائیں کیونکہ اربوں کی تعداد میں لوگوں کو یک مشت مٹانا آسان کام نہیںہے ،وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب وہ دنیا کے دور دراز گوشوں میں اور چپے چپے پر اعلائے کلمتہ الحق کررہے ہوں ۔اگر ایسی صورت نہ بھی بنے پھر بھی انہیں اس حد تک نقصان پہنچایا جائے کہ فرقوں اورگروہوں میں بٹ کر اُن کی اجتماٍٍعیت اور بین الاقوامی برادری (Universal brotherhood)بکھر کے رہ جائے۔یہ جنگ اگرچہ پوشیدہ طور سے کافی عرصہ سے جاری تھی مگر اس کا کھلم کھلا اور باقاعدہ طور پر اعلان نہیں ہوا تھا ،مگر کچھ عرصہ قبل سے اِن دشمنان اسلام نے جان بوجھ کر کچھ ایسی وارداتیںخود انجام دیں مگراُن کو مسلمانوں کے سر تھوپ دیا تاکہ مسلمانوں کو آسانی کے ساتھ اوربغیر کسی رکاوٹ کے ٹارگٹ بنایا جاسکے اور اُن کی اپنی کرتوت اور ریشہ دوانیاں مسلمانوں کے خلاف دشمنانہ سلوک کرنے کا جواز بن سکے۔
مثال کے طور پر امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں خود دھماکہ خیز مواد رکھ کر جیساکہ اُن کی اپنی ڈیفنس سے وابستہ ایجنسیوں نے انکشاف بھی کیا کہ اگر ہوائی جہاز اوپر والی منزل کو تباہ کرسکتا ہے تو نچلی منزلیں کیسے بھک سے اُڑ گئیں جب تک اُن میں ایسا مواد نہ رکھا جاتا ۔مختصر یہ کہ اُن ایجنسیوں نے اس کانڈ کو امریکہ کی ہی کارستانی بتایا تھا ۔اس طرح سے اُس دہشت گردانہ کارروائی کو مکمل طور سے مسلمانوں کے سر تھوپ کر امریکہ نے ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ،اُس کی ایک مثال ابو گریبؔ جیل کی ہے جس میں حیوانیت کا ننگا ناچ دکھاکر انسانیت سوز اور شرمناک اذیتیں دے دے کر ہزاروں مسلمانوں کو تڑپاترپاکر اور ترسا ترسا کر شہید کردیا گیا ۔افغان نوجوانوں کے استحصال میں اُن بے رحم حیوانوں نے ٹریلروں میں پچاس کی جگہ پانچ سو بھر کر اُن کو گھٹ گھٹ کر اور تڑپاتڑپاکر شہید کردیا ،سینکڑوں کی گردنیں مروڑ کر موت سے ہمکنار کیا گیا ۔پانی مانگنے پر اُن کے دہانوں میں گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی اور اس طرح سے افغانستان ،عراق ،لیبیا ،شام ،فلسطین ،سوڈان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔کُردوں ؔکو ہتھیار فراہم کرکے اُن کو اپنے ہی ہم مذہب تُرکوںؔ کے خلاف صف آراء کردیا گیا ۔داعش کو وجود میں لاکر لاکھوں مسلمانوں کے سر تن سے جدا کردئے گئے اور متواتر دوسرے ملکوں پر حملے کرواکر صرف اور صرف مسلمانوں کوہی ہدف بنایا جاتا رہا ۔اسرائیل کی ہر طرح کی مدد کرکے ،اُن کو ہوم لینڈ عطا کرکے، اُن کے سَر پر ہاتھ رکھ کر فلسطین کے عربوں کی ملکیت چھین لی گئی ،گھروں کو آگ لگا دی گئی ،لاکھوں لوگوں کو قتل کر ڈالا گیا اور لاکھوں اس وقت دیار غیر میں سابقہ 70برس سے مہاجر کیمپوں میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اپنی نسل کی بقاء کی خاطر ایک صبر آزما اور کٹھن جدوجہد کے ساتھ نبرو آزما ہیں ۔ امریکہ کے اسی ناجائز بچے نے ناجائز طور سے زمین ہتھیانے اور اُس پر پنپنے والے فلسطین کے بچوں پر نیپام بم برساکر پوری ایک نسل کا ہی صفایا کردیا مگر اس بارے میں کسی کو بات کرنے یا اعتراض جتانے کا یارا نہ تھا ۔ہوتا بھی کیسے ورلڈ پولیس مین جو سر پر سوار تھا ۔ خوامخواہ کی شامت کون مول لیتا ؟؟؟
یہود و نصاریٰ اور ہندو ؤںنے مسلمانوں کے خلاف چھیڑی ہوئی اس جنگ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ایک ماس و الیکٹرانک میڈیا کا منفی استعمال اور دوسرا مسلح جدال و قتال ۔بلاشبہ دونوں مورچوں پر کام بڑی تندہی اور شدومد سے جاری ہے۔اپنی انتہائی نفرت اور کینہ توزی کے سبب مختلف ذرائع ابلاغ اخبارات ، رسایل ،فلم ،ریڈیو ،ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعے یہ لوگ مسلمانوں کو بد اخلاق ،جاہل ،دھوکہ باز ،ظالم،قاتل ،عیاش اور دہشت گرد غرض یہ کہ مکمل طور سے ایک شیطانی مخلوق کے طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ موجودہ نسل اور سکولوں ،کالجوں میں زیر تعلیم نوجوان کا برین واش کرکے اُنہیں مسلمانوں کے خلاف وقت آنے پر صف آراء کیا جاسکے۔رائے عالم اور رائے عامہ بھی ہموار ہوجائے تاکہ بعد میں مسلمانوں پر یلغار کرکے صفحہ ہستی سے مٹانے میں آسانی ہو کیونکہ پھر اعتراض کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے اور یہ بات کس قدر رنجیدہ خاطر ہے کہ آج سے چند برس قبل صرف بریڈفورڈؔمیں پندرہ سو سے زاید صنعتی یونٹوں نے باہر نوٹس لگا رکھے تھے کہ مسلمانوں کو ملازمت کے لئے درخواست گذاری کی اجازت نہیں ہے جب کہ امریکہ میں کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں واش روم کے ٹائیلٹ پیپروں پر مسلمان لیڈروں کی تصویریں چھپتی ہیں اور جوتوں اور فٹ بالوں پر لفظ اللہ (نعوذ باللہ)لکھا ہوا ملتا ہے ۔سلمان رشدی اور انور شیخ جیسے کثافت اور گندگی سے بھرے یہودی ایجنٹ شیطان صفت انسانوں سے کتابیں لکھواکر اُن کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ان جیسے مر تدین کو تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے ۔جس طرح بنگلہ دیشی بے ادب عورت ملک بدر کی گئی نعیمہ نسرین اور طارق فتح جیسے مردود کک آوٹ کئے ہوئے پاکستان نژاد موجودہ کنیڈا کے متوطن کو ہندوستان میں وی آئی پی مہمانوں کی حیثیت حاصل ہے ۔حالانکہ یو ٹیوب کے ایک پوسٹ کے مطابق طارق فتح نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اُسے اسلام دشمنی اور اسلامی شبیہ مسخ کرنے کی خاطر ڈھیروں پیسہ ہندوستان سے ملتا ہے ،اُس نے نہ بھی کہا ہو مگر مدعا و مقصد اُس کو پروجیکٹ کرنے کا اور کیا ہوسکتا ہے ؟اگر ہندوستان کے قضا و قدر کے مالکوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے تو پھر ایسے شخص کو شورش پیدا کرنے کی بنا پر جیل میں ڈال کر اُسے ملک بدر کردینا چاہئے تھا مگر اس کے برعکس اُس کی کیا آئو بھگت ہوتی رہی وہ تو دنیا نے دیکھ ہی لیا ۔شہزادی ڈیاناؔکا قتل اس لئے کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا چاہتی تھی اور بابری مسجد اس لئے مسمار کی جاتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ بانی ٔ مغلیہ سلطنت آنجہانی حضرت ظہیر الدین بابر علیہ الرحمہ کا نہیں بلکہ ایک مسلمان کا نام جُڑا ہوا تھا ۔
(باقی اگلے ہفتے انشاء اللہ)
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995