سید مصطفیٰ احمد
ایچ ایم ٹی، سرینگر
رواں مہینے کے دوران پہلے بارہویں، پھر NEET اور اب دسویں کے نتائج منظر عام پر آ چکے ہیں۔ میں تمام طلباء کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ان کی محنت کا پھل ہے جو انہوں نے اتنے اچھے نمبرات حاصل کئے ہیں۔ گھر والوں کی امیدوں پر بھی کھرے اترے ہیں۔ سماج کی توقع کے مطابق بھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے ہیں۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں تعریفوں کا ایک لامتنا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ہر ویب سائٹ پر پوزیشن ہولڈرس کی تصاویر چڑھی ہوئی ہیں۔ مگر اس خوشی میں کہیں نہ کہیں ہم اصلی مقصد سے کھو گئے ہیں۔ بالفاظ دیگر کیا ہمارے بچے برابر نمبرات اور پوزیشنیں حاصل کرکے علم اور اس کے فوائد سے روشناس ہیں۔ یہ ایسی بات تو نہیں ہوئی کہ ہم پیڑ کی پتیوں کو سینچ رہے ہیں مگر دوسری طرف سے ہم جڑوں کو کاٹ کر درخت کی لمبائی اور چوڑائی سے متاثر ہوئے بیٹھے ہیں۔ میرے لحاظ سے ہماری حالت ایسی ہے۔ ہم نے پتیوں کو ہر رنگ سے رنگا ہے مگر ہماری جڑیں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ اب یہ وقت کی بات ہے کہ یہ درخت کب گرے گا اور جب یہ درخت زمین پر دھڑام کے ساتھ گرے گا، تب ہم ہوش کے ناخن لیںگے۔ ابھی ہماری آنکھوں پر خوشی کا خمار ہے اور اس خمار کی وجہ سے ابھی جو تصویر ہمارے آنکھوں کے سامنے ہے، وہ دھندلی ہے۔ اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مندرجہ بالا جماعتوں کے نتائج آخری منزل نہیں ہے۔ شاعر ایک جگہ کہتا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہے۔ اس کو اگر دوسرے لحاظ سے سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی یہ پہلی سیڑھی ہے اور آج کے زمانے میں اس سیڑھی کی کوئی بھی وقعت نہیں ہے۔ یہاں بےروزگاری نے پہلے سے ہی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب اس میں ہر سال لاکھوں کا اور اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس ناو کا بوجھ اور بڑھ رہا ہے۔ امکان ہے کہ اس ناو کے ڈوب جانے سے بہتوں کا بیڑا بھی غرق ہوجائے گا اور پھر سینہ پیٹنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیسے یہاں تک پہنچے۔ اس کی پہلی وجہ ہے تعلیم کا صرف ذریعہ معاش بنانا۔ پہلے علم کا مقصد دانائی اور خود شناسی تھا۔ مگر اب اس کا مطلب ہے پیسہ۔ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے مصداق اب جو بھی تعلیم حاصل کرتا ہے اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ زیادہ سے زیادہ کمایا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے گلی گلی ، کوچہ کوچہ نمبرات کا پرچار کرنا ہے۔ Advertisements کا بھرپور سہارا لینا ہے۔ سوشل میڈیا کی ہر ویب سائٹ پر اول پوزیشن والے طلباء کی تصاویر چسپاں کرنی ہے۔ پوسٹرس بانٹنے ہیں۔ لوگوں کے اذہان میں نمبرات کی چھاپ بڑھانے ہیں، ہر کوئی متاثر رہے بغیر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ انٹرویوز کا اہتمام کرنا ہے، اسکولوں میں پروگرام کرنا ہے اور اگلے دن یہ خبر اخباروں کی زینت بنانا ہے۔ اس طرح سے یہ لمبی چین کی شکل اختیار کرتا ہے اور corporate education کی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوجاتی ہیں۔ دوسرا ہے علم کے متعلق تنگ نظریہ۔ ہمارے یہاں نوکری حاصل کرنے کو علم کہا جاتا ہے۔ کسی حد تک نوکری حاصل کرنا بھی تعلیم کے مقاصد میں آتا ہے مگر تعلیم کی ساری عمارت کو ایک ہی مقصد کے لئے سامنے قربان کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔ نوکری حاصل کرنے سے پہلے بھی ایک چیز ضروری ہے، وہ ہے نمبرات، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ اب اگر تعلیم کے متعلق ایسی سوچ ہو، تب اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔ اس قوم کی ترقی کرنا محال ہے۔ یہاں rote learners کی تعظیم ہونگی مگر تخلیقی اذہان کے مالک طلباء دربدر کی ٹھوکریں کھائیں گے۔ تیسرا ہے حکومت کا ہاتھ۔ حکومت کے دعوے سراب ثابت ہوئے ہیں۔ بلند نعروں کے باوجود زمین پر کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ NEP 2020 ہو یا پھر دوسری کوئی پالیسی، زمین پر حقیقی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ہر روز گورنمنٹ کہتی ہے کہ ہم طلباء کو مستقبل کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو سماج میں جینے کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ مگر زمین پر یہ باتیں کہیں پر بھی دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ حکومت بھی ان کی تعریفوں میں آگے آگے ہیں، جو اول پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔ اس منافقت کی وجہ سے پڑھائی کا جنازہ اٹھتا ہے اور تخلیقی اذہان ضائع ہوجاتے ہیں۔
تعلیم کو اس کا حقیقی رتبہ واپس دلانے کے لئے ہم لوگوں کو چیزوں سے اوپر اٹھ کر دیکھنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم بوجھ نہ بنے تو تعلیم کو تعلیم کی نگاہوں سے دیکھنا ہوگا۔ مستقبل کی خاطر ہمیں تنگ نظریہ کو خیرباد کہنا ہوگا اور ان ممالک کی پیروی کرنی ہوگی ،جنہوں نے تعلیم کو سماج کے قالب میں ڈال دیا ہے۔ جب تک ہم انفرادی خصوصیات کو نظر انداز کرتے رہیں گے، تب تک ہمارا ہی نقصان ہوتا رہے گا۔ جس کو جو بننا ہے ،اس کو بننے کی آزادی ہونی چاہئے ۔ اس کی راہ میں روڑے مت اٹکائے۔ اس سے ملک کی ترقی ممکن ہوسکے گی۔ اگر نہیں، تو پھر ہم نمبرات اور اول پوزیشن کو ہی تعلیم مان کر خود کا بھی اور آنے والی نسلوں کا بھی نقصان کریں گے۔ سب کو اس کار خیر میں آگے ہونا ہوگا اور اپنی حقیقی ترقی کی طرف گامزن ہونا پڑے گا۔ The Indus Valley Civilization والا نصاب ہماری قسمت کو نہیں بدل سکتا۔ AI کے دور میں اب انسان کی وقعت ختم ہورہی ہے۔ انسان کو ذہنی غلام بنانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ اس صورتحال میں پڑھائی کو نمبرات تک محدود کرنا، پاگل پن کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب بھی موقع ہے کہ ہم تعلیم کی طرف سنجیدہ ہوجائے اور اس کو زندگی کی اُلجھنوں کو کم کرنے میں بروئے کار لائے اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔
[email protected]