جاوید اختر بھارتی
رمضان المبارککے سایہ فگن ہوتے ہی مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی، سحری و افطار کا اہتمام ہونے لگا، عصر بعد سے افطاری کے دسترخوان کو سجانے کے لئے بھاگ دوڑ ہونے لگی اور بعد نماز عشاء تراویح کا اہتمام بھی ہونے لگا۔ یہ حقیقت ہے کہ دن گذرنے کے ساتھ ساتھ تراویح پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی آگئی ہے مگر الحمدللہ تقریباً جو بھی
بوڑھے جوان نماز تراویح پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں،اُن کے خشوع و خضوع میں کمی دکھائی دیتی ہےاور اس کی ذمہ داری انہیں لوگوں پر عائد ہوتی ہےجو تراویح پڑھانے کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ سارے حفاظ کرام ایسے نہیں ہیں بلکہ آج بھی حفاظ کرام کی بڑی تعداد ایسی ہے جو قابل احترام ہیں اور قابل قدر ہیں جو مصلے پر کھڑے ہوتے ہیں تو انہیں مقتدیوں کا خیال رہتا ہے ،مگر ایسے حفاظ کرام کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے جو سات دن میں تراویح ختم کردیتے ہیں۔ ایک ایک دن میں چار پانچ پارے پڑھتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ کیا قرآن پڑھنے کا یہی طریقہ ہے؟ جبکہ قرآن خود قرآن پڑھنے کا طریقہ بھی بتایا ہے قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو، اطمینان سے پڑھو تاکہ قرآن پڑھنے والے کے اور قرآن سننے والے دونوں کے دل و دماغ پر اور اس کی زندگی پر قرآن کے اثرات مرتب ہو سکے۔ آج تو خاندانی مسلمان، پیدائشی مسلمان مصلے پر کھڑے ہوکر ایسے قرآن پڑھتے ہیں، جیسے پوری رفتار میں گذرتی ہوئی ریل کی بوگیاں گننا دشوار، اسی طرح قرآن کی آیات سننا، سمجھنا بھی دشوار ۔مقتدی کا حال یہ ہے کہ گنے چنے لوگ نیت باندھے ہیں، باقی بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب دوسری رکعت کے رکوع کی تکبیر ہو، جیسے ہی رکوع کی تکبیر ہوئی گھم گھم نیت باندھ کر لوگ رکوع میں چلے گئے ،امام نے سلام پھیرا تو یہ لوگ کھڑے ہوکر چھوٹی سی سورۃ یا چند آیتیں پڑھ کر دوسری رکعت پوری کرلی۔ بتاؤ کیا اسی کو خشوع و خضوع کہتے ہیں؟کیا یہی شریعت کے مطابق اصول و ضوابط ہیں؟
ذرا غور کیجئے، تین دن، سات دن، دس دن کی تراویح پڑھانا اور قرآن مکمل کرنا کہیں یہ قرآن کا مزاق اُڑانا تو نہیں ہے۔ کہیں یہ اللہ کے غضب کو پکارنا و للکار نا تو نہیں ہے۔
قرآن مقدس مکمل ضابطہ حیات ہے، اسلام کا آئین، عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے، جس کا مقام اور مرتبہ اتنا بلند ہے کہ جس بستی میں نازل ہوا، اُسے ام القریٰ کا درجہ دیا گیا۔ جس مہینے میں نازل ہوا، اُسے سید الشہور کا درجہ دیا گیا۔ جس رات میں نازل ہوا، اُسے ہزار راتوں سے افضل قرار دیا گیا۔ جو فرشتہ قرآن کی آیات لے کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوتا تھا، اُسے سید الملائکہ کا درجہ دیا گیا اور جس ہستی پر نازل ہوا، اُنہیں اللہ نے سید الانبیاء و سید المرسلین، افضل البشر، سید البشر اور خیر البشر بنایا۔ جبکہ خود قرآن کا ہی اعلان ہے کہ پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ تھرا اُٹھتا، ریزہ ریزہ ہوجاتا۔
یاد رکھیں کہ ان ساری خصوصیات کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کے مطابق اور اپنی اسپیڈ و رفتار کے مطابق قرآن پڑھا جائے گا تو جہاں ایک حرف پر دس نیکی ملنے کی بات ہے وہاں ایک نیکی بھی نہیں ملے گی بلکہ سزا ملے گی۔ کیونکہ تم نے’’ ورتل القرآن ترتیلا‘‘ کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اس کا مزاق اڑایا ہے۔