سرینگر//حریت(ع) چیرمین میرواعظ عمر فاروق نے حکومت کی جانب سے مرکزی جامع مسجد سرینگر کو فورسز کے محاصرے میں رکھنے اور معراج النبی ﷺ کے مقدس موقعہ پر وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی اور طے شدہ پروگرام کے تحت مجلس توبہ و استغفار کے انعقاد پر پابندی عائد کئے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بار بار مرکزی جامع مسجد سرینگر کو نشانہ بنا کر کشمیری عوام کی اس سب سے بڑی عبادتگاہ میں نماز کی ادائیگی پر پابندیاں عائد کررہی ہے اور اس طرح ملت کشمیر کے مذہبی جذبات کو شدید طور مجروح کیا جارہا ہے ۔ میرواعظ نے حکومت کے اس طرح کے جارحانہ اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس پر شدید برہمی کا اظہارکیا اور کہا کہ آج جب کہ پوری اسلامی دنیا میں معراج العالم ﷺ کی مقدس تقریب انتہائی عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے اور اس حوالے سے جامع مسجد سرینگر میں مجلس توبہ و استغفار کے انعقاد کا طے شدہ پروگرام تھا مگر ایسا لگ رہا ہے کہ حکمران طبقہ یہاں کے عوام کی سیاسی ، سماجی اور معاشرتی آزادی کے ساتھ ساتھ انکی مذہبی آزادی بھی سلب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور جامع مسجد کو بار بار بند کرنا اس کے ارد گرد پہرے بٹھانا ، شہر خاص کے عوام پر شدید بندشوں اور قدغنوں کے نفاذ حکومت کی اُس معاندانہ پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ جامع مسجد کے منبر و محراب کو خاموش کرکے اور یہاں کے مظلوم عوام کے حقوق کی بازیابی کے حق میں اٹھنے والی صدائوں کو طاقت اور قوت کے بل پر خاموش کرنا چاہتی ہے۔ میرواعظ نے کہا کہ کشمیری عوام کی سب سے بڑے دینی اور روحانی مرکز کو بند کرکے حکومت آخر کار کیا ثابت کرنا چاہتی ہے ۔اس دوران حریت ترجمان نے سرینگر کے سینٹرل جیل میں مبینہ طوروہاں مقید کشمیری سیاسی نظر بندوں اور جیل حکام کے درمیان تصادم آرائی کے دوران کئی قیدیوں کے زخمی ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سینٹرل جیل سمیت وادی کے مختلف جیلوں میں مقید کشمیری سیاسی نظر بندوںکے حوالے سے حکومتی پالیسی جس کے تحت یہاں مقید قیدیوں کو بیرون ریاست منتقل کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے حد درجہ تشویشناک اور غیر انسانی عمل ہے اور حکومتی اقدام بھارت کی عدالت عالیہ کے اُس فیصلے کے منافی بھی ہے جس کے تحت وادی کے جیلوں میں مقید کشمیری سیاسی نظر بندوںکو باہر کی جیلوں میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔