غورطلب
اِکز اقبال
نماز دین اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ نماز نہ صرف بندے اور اس کے رب کے درمیان باہمی تعلق کو مضبوط کرتی ہے بلکہ انسان کی اندرونی کیفیت کو بھی نئی روح عطا کرتی ہے۔ سورۃ المعارج کی آیات نمبر ۱۹ تا ۲۲ پر غور کر رہا تھا، جن میں انسان کی پیدائش اور اس کی فطری حالت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اِنَّ الاِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوعًا°اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوًا°وَّ اِذَا مَسَّہُ الخَیرُ مَنُوعًااِلَّا المُصَلِّینَ° (سورۃ المعارج 19:22)۔حقیقت یہ ہے کہ انسان بہت کم حوصلہ پیدا کیا گیا ہے۔ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جاتا ہےاور جب اس کے پاس خوشحالی آتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے۔مگر وہ نمازی ایسے نہیں ہیں ( ترجمہ )
یعنی انسان ’’ہلوعا‘‘’’جزوعا‘‘ اور’’منوعا‘‘ پیدا کیا گیا ہے۔ ان الفاظ کے مفہوم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر بے چینی، تشویش اور کنجوسی کا شکار ہے۔ لیکن جب آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’لِّا المُصَلِّینَ‘‘تو دل کو ایک عجیب سی تسکین اور خوشی محسوس ہوتی ہیں۔ یہ پیغام ہمیں بتاتا ہے کہ نماز پڑھنے والے انسان اپنی اندرونی کمزوریوں سے آزاد ہو کر ایک بلند مرتبہ روحانی کیفیت کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔نماز کی برکتیں نہ صرف عبادت گزار کی روح کو سکون فراہم کرتی ہیں بلکہ اس کے دل و دماغ پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ جب کوئی انسان نماز کی باقاعدہ ادائیگی کرتا ہے تو وہ دنیاوی پریشانیوں سے فرار پاتا ہے اور اس کے دل میں ایسی کشادگی پیدا ہوتی ہے جو اس کے وجود کو نور سے منور کر دیتی ہے۔ نماز کی برکت سے نہ صرف انسان کی فکر و خیالات میں تازگی آتی ہے بلکہ اس کے اخلاق اور کردار میں بھی نکھار پیدا ہوتا ہے۔
نماز کے فوائد کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا ہماری زندگی کا اہم جزو ہے۔ ایک مسلمان کی روزمرہ زندگی میں نماز کی جگہ بہت معزز ہے۔ نماز ہمیں نہ صرف اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رکھتی ہے بلکہ ہمیں دنیاوی لذتوں اور خواہشات کی قید سے آزاد کر کے ایک ایسی زندگی کی طرف راغب کرتی ہے۔ جہاں روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگی کے تمام مسائل اور پریشانیوں سے ایک عارضی فرار ملتا ہے اور دل کو ایک نئی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحے ہیں جب ہماری روح کو ایک نیا حوصلہ ملتا ہے اور ہم اپنی زندگی کو ایک نئے انداز سے دیکھتے ہیں۔نماز محض ایک فرض عبادت نہیںبلکہ یہ دل و دماغ کا وہ علاج ہے جو انسان کو اس کی فطری کمزوریوں سے نجات دلاتی ہے۔ نماز دل کی بےچینی کو سکون میں گھبراہٹ کو صبر میں اور کنجوسی کو سخاوت میں بدل دیتی ہے۔
جب انسان اللہ کے حضور پانچ وقت جھکنے لگتا ہے، اپنی ہر تکلیف، ہر خواہش اور ہر خوشی کو ربّ کے سپرد کر دیتا ہے، تب اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ نماز اس کے دل سے وہ بےچینی نکال دیتی ہے جو تکلیف کے وقت اسے کمزور کر دیتی تھی۔ وہ جان لیتا ہے کہ ہر پریشانی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اور ہر خوشحالی اللہ کی عطا ہے، جسے روک لینا نہیں بلکہ بانٹ دینا اصل امتحان ہے۔یوں نماز پڑھنے والا بندہ اپنی فطری کمزوریوں سے آزاد ہو کر ایک نئی روشنی اور نکھار کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ نماز کے ذریعے دل کے اندر سے تشویش، بے چینی اور کنجوسی کے منفی اثرات مٹ جاتے ہیں اور ایک ایسا عالم پیدا ہوتا ہے، جہاں انسان اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے ساتھ جینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی نماز کا اصلی پیغام اور برکت ہے جو ہر مسلمان کے لیے ایک انمول نعمت اور روحانی سرور کا ذریعہ ہے۔نماز انسان کے دل کو کشادگی اور وسعت عطا کرتی ہے۔ وہ دل جسے کبھی دُکھ کا ڈر اور خوشی کا لالچ گھیرے رکھتے تھے، اب صبر اور شکر کے نور سے بھر جاتا ہے۔یہی وہ انقلاب ہے جو نماز برپا کرتی ہے — ،ایک بےچین دل کو سکون، کمزور نفس کو طاقت اور تنگدل انسان کو کشادہ ظرف بنا دیتی ہے۔بے شک نماز، اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہےجو انسان کو اس کی فطری کمزوریوں سے نجات دلا کر کامل انسان بنا دیتی ہے ، صبر کرنے والا، شکر بجا لانے والااور دوسروں کے لئے دل میں کشادگی رکھنے والا۔رب تعالیٰ ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے، جن پر ’’اِلَّا المُصَلِّینَ‘‘ کا استثناء لاگو ہوتا ہے۔ آمین
(رابطہ۔ 7006857283)
[email protected]