رات کا پچھلا پہر تھا اور آکاش پہ تارے تھک کر سو گئے تھے۔ دھرتی ماں گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی… کہیںکچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ صرف ذیبہ خالہ اکیلی اپنی جھونپڑی میں چھت گیر کی دھیمی روشنی میں چھت گیر سے یوں مخاطب تھی…
’’میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اندھیرا اُجالے کا دوست نہیں ہوسکتا؟‘‘
’’روشنی کو ناش کرنے والا اندھیرا تمہارا ساتھی کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
’’پھر اندھیرے کے ساتھ یہ کیسی ہمدردی؟‘‘
کاش تم نے میرا کہنا مانا ہوتا…آج تمہاری یہ حالت نہیں ہوتی! … تم آج روشنی کی ایک کرن کے لئے ترس رہے ہو… ابھی بھی وقت ہے مان لو… اندھیرا سراب ہے شکتی نہیں!
پگلی! اندھیرے میں پرچھائیں بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے…
جس اندھیرے پر تم فریفتہ ہوئی… جسکو تم تابدار کرنے کے واسطے گھر سے نکلی تھی… اُس نے آخر کار تمہیں ذلت اور رسوائی کے سوا اور کیا دیا! بڑھاپے میں تو نے مجھے کرب و بے چینی کا مریض بنایا… میری شاہراہِ حیات پہ جگہ جگہ یاس و نااُمیدی کے سائے منڈلاتے رہے… بیٹی! کاش تم نے میرا کہنا مانا ہوتا…!
خالہ کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ اُس کی سسکیاں رات کے سکوت میں تحلیل ہوکر رہ گئیں!
’’ذیبہ خالہ… ذیبہ خالہ‘‘ میں نے چلا چلا کر ذیبہ خالہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔
’’ہاں…ہاں بول بیٹے‘‘۔ ذیبہ خالہ شفقت سے بولی۔
’’خالہ! اتنی دیر… تم چھت گیر کے ساتھ کیا باتیں کررہی ہو؟ بھلا چھت گیر کوئی انسان ہے کیا جو تمہاری سنے گا؟ خالہ! کیوں خوامخواہ رات کا آرام اپنے لئے حرام کرتی ہو!‘‘ میں نے خالہ کو تعجب سے پوچھا۔
’’بیٹے! کونسا آرام…؟ وہ تو اُسی دن نسیمہ اپنے ساتھ لے کر گئی تھی، جب وہ اپنے جھواہے میں روشنی لئے سیاہ راہوں کو روشن کرنے کے لئے گھر سے نکلی تھی… لیکن …ہاں …!
پھر خالہ اچانک خاموش ہوگئی۔
’’خالہ…خالہ… خاموش کیوں ہوئی… خدارا کچھ تو بول۔ پھر …پھر کیا ہوا‘‘؟
خالہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو اُمڈ آئے۔ اُس نے رِدائے غم سے آنسو پونچھ لئے اور بولی…
’’سیاہ شہر کے پاسبانوں نے میری بیٹی نسیمہ کو راستے میں ہی لوٹا اور اُس سے وہ تمام روشنی چھین لی جو وہ اپنے جھواہے میں اپنے ساتھ لے گئی تھی۔اس طرح میری بیٹی جو سیاہ راہوں کو روشن کرنے کے لئے نکلتی تھی خود ظلمت کا شکار ہوکر رہ گئی۔
راہِ ظلمت کا مسافر میری بیٹی کا کہیں کوئی سُراغ نہیں ملا۔ اس کے انتظار میں میری بینائی بھی کمزور ہوگئی… چار سال بیت گئے۔ لیکن میری بیٹی اُن سیاہ راہوں سے لوٹ کر واپس نہیں آئی۔ اب میں تنہائی کے اس صحرا میں پیاسے پرندہ کی طرح العطش پکار رہی ہوں۔ میرے احساسات اور جذبات ریت کے گھروندے کی طرح مسمار ہوگئے۔ میں کب سے رات کے اس ٹوٹے کھنڈر میں اپنی اکلوتی بیٹی نسیمہ کی حسین یادوں کے نقوش اس چھت گیر کے سایہ میں تلاشتی ہوں جو رات بھر میرے ساتھ اُجالے کے انتظار میں جل رہا ہے!!‘‘
رابطہ؛آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام،
موبائل نمبر؛9906534724