وادیٔ کشمیر کے ذِی شعور اور باحِس عوامی حلقوں میں اس امر پر زبردست تذبذب اور اضطراب پایا جاتا ہے کہ معاشرےمیں ذہنی اورنفسیاتی امراض جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں،وہ انتہائی تشویش ناک ہےاوراس کے نتائج مستقبل کے لئے انتہائی بھیانک ثابت ہوسکتے ہیں۔وادیٔ کشمیر میںروز افزوںسرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں اوردیگر طبی مراکز کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طبی کلنکوںمیں بڑے پیمانے پربیماروں کی جو بھیڑ لگی رہتی ہے ،اُن میں قریباً پچیس فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جونفسیاتی یا ذہنی ا مراض میں مبتلا ہوتے ہیں، جن میں خاصی تعدا د نوجوان نسل کی بھی ہوتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اگرچہ ان بیماریوں کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں،لیکن عام نفسیاتی امراض، ڈپریشن، اُداسی، گھبراہٹ، خوف ،وَسوسے وغیرہ زیادہ تر ماحول کے اثرات اور انسانی رویوں میں تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان پربروقت مناب علاج سےقابو نہیں پایا جائے تویہ بعدازاں خطرناک شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ انسان کی صحت عطیہ خداوندی ہے، اس کا ہونا خوش نصیبی اور بہت بڑی دولت ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق محض بیماریوں کا نہ ہونا صحت نہیں ہے بلکہ صحت مند وہ ہے ،جس کی جسمانی صحت برقرار ہو، اُسے ذہنی سکون اور اطمینان حاصل ہو تو وہی معاشرے میں اپنابھرپور کردار ادا کر سکتا ہے۔لیکن وہ لوگ جن کے گھرمیں، ایک پاگل پن کا شکار نوجوان، وہم اور خوف اور ڈپریشن کے مریض، ذہنی معذور بچہ، منشیات کا عادی فرد، یاداشت کے خاتمے کا بزرگ موجود ہے، وہ اس کرب کو سمجھ سکتے ہیں جس سے خود مریض اور سارے گھر والوں کو گزرنا پڑتا ہے۔ موجودہ دور میں معاشرتی ناہمواری، معاشی پریشانیاں ،مسائل کی زیادتی، آرزؤں کا ہجوم، وسائل کی کمی، مشترکہ خاندانی نظام میں بگاڑ، اخلاقی و مذہبی اقدار سے بیگانگی، والدین کے باہمی جھگڑے ، ماحول کی تلخیاں،صحیح تربیت اور رہنمائی کا فقدان ان امراض کی چند اہم وجوہات ہیں۔ اسی طرح موجودہ دور میں سوشل میڈیا کاکثرت سے استعمال بھی ذہنی اعصابی دباؤ میں اضافہ کا باعث بنا ہوا ہے۔ ان سماجی اور ماحول کی وجوہات کے علاوہ موروثیت، شخصیت کی کمزوری اور انسان کے دماغ میں مختلف کیمیائی مادوں کی کمی بیشی سے بھی یہ مرض لاحق ہوتا ہے۔تاہم یہ نفسیاتی امراض قابل علاج ہیں اور ان کا بروقت ماہر ڈاکٹر وں سے علاج کرنے سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔یاد رہے کہ جوانی زندگی کا بہترین دور ہوتاہے، جس میں علم و عمل کی بنیادیں مضبوط رکھی جائیں تو وقت کی آندھیاں بھی اُسے ہلا نہیں سکتیں۔اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے کی نوجوان نسل اپنے عزائم کو توانا رکھتے ہوئے چمکتے ستارہ بننے کی کوشش کریں اور مایوسی و پژمردگی سے بچیں اوریہ جان لیں کہ زندگی صرف کامیابی کا مجموعہ نہیں بلکہ ناکامی بھی اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ہر ناکامی کے بعد کامیابی ملتی ہے، ہر مشکل کے بعد آسانی بھی ہوتی ہے ۔ چنانچہ ہمت و استقلال اور مضبوط ارادے، نظم و ضبط سے وجود میں آتے ہیں ،جس میں خواہشات، خیالات، جذبات اور افعال سبھی شامل ہیں اور نظم و ضبط میں استقامت اُن خرافات سے بچنے کے بعد ہی حاصل ہوگی، جن میں ہم آج پھنسے ہوئے ہیںجن میں سوشل میڈیا، دنیاوی تفریحات اور اس کی رونقیں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ان کے بجائے اپنی جسمانی و ذہنی اور روحانی نشوونما پر توجہ دیں اور اگر آپ سنجیدگی کے ساتھ متوجہ ہو جائیں تومستبقل تابناک بن سکتا ہے۔خصوصاًسائنس و ٹیکنالوجی کے اس تجدیدی دور میں نوجوانوں کو اپنی سنہری تاریخ کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہےاوراپنی کھوئی ہوئی قدر و منزلت کو حاصل کرنے کے لئے محنت و مشقت کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر اسلام کی حقیقی روح کو اُجاگر کرکے استقامت سے وقتی ناکامی پر قابو پانے کی ضرورت ہےاور اپنا وقت محض گزاریں نہیں بلکہ ہر گذرتے وقت سے کچھ پانے کی کوشش کرنی ہے۔جموں وکشمیر کی موجودہ انتظامیہ کوبھی اس معاملےمیں سنجیدگی کے ساتھ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔کیونکہ وادی ٔ کشمیر کے متوسط اور غریب عوام کو بنیادی ضرورتوں کی حصولیابی کے لئے جن مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے،اُس سے اُن کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔کیونکہ بے روزگاری،اقتصادی بد حالی ،مہنگائی اور غیر معیاری خوردونوش اور جعلی ادویات نے تو پہلے ہی اُنہیں ذہنی اور نفسیاتی اُلجھنوںکا شکار بناکے رکھ دیا ہے۔