سید مصطفیٰ احمد
انسان کی بناوٹ کو دیکھ کر خود انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔ انسان کی اندرونی ساخت کے بارے میں صرف بنانے والے کو ہی معلوم ہے، لیکن خالق و مالک نے انسان کو اتنی طاقت عطا کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے کہ جسم کے علاوہ روح کی ضروریات کو پورا کرنا بھی لازمی ہے۔جن سے بیشتر افراد ناآشنا ہیں۔ جنسی ضروریات بھی اصل میں روح کی ضروریات میں سے ہیں۔ لیکن بیشتر لوگ جنسی ضروریات کو جسم کی باقی ضروریات کی طرح سمجھنے سے قاصر ہیں، جس کی نتیجے میں مثبت فوائد سے زیادہ تر لوگ فیضیاب نہیں ہوپاتے ہیںاوروہ ازدواجی زندگی میں جائز جنسی تعلقات سے ناواقف ہوتے ہیں اور شہوت کے چکر میں اصل جنسی فوائد اور نقصانات سے دور رہ جاتے ہیں۔ جس کا اثر ہماری نوجوان نسل پر بھی پڑتاہے،جوبنا سوچے سمجھے اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور بربادی کی وادیوں میںچلے جاتے ہیں، جس سے معاشرے پر کاری ضربیں لگتی ہیں۔ جیسے کہ عنوان سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ شہوت جوکہ انسانی فطرت میں شامل ہےکیوں کر ساری چیزوں پر سبقت لے جاتی ہے۔ ایسے کونسے وجوہات ہیں جو ایک انسان کو شہوت کا غلام بنا دیتی ہیں۔ آج کے اس تیز رفتار دور میں پہلے سے موجود چیلنجز کے علاوہ شہوت کی گندی لت بھی عروج پر ہےاور نہ دِکھنے والی شے ہر چیز کو تباہ کرنے کا مادہ اپنے اندر سمیٹے ہوئی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کونسے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے شہوت اپنے عروج پرہے۔ کچھ کا ذکر مندرجہ ذیل سطروں میں مختصر طور پر کیا جارہاہے۔
(۱) جنسی معلومات کا فقدان: ہمارے یہاں جنسی معلومات کا اتنا فقدان ہے کہ ایک ذِی حس انسان اس بابت بات کرنے سے بھی کتراتا ہے۔ اس کا براہ ِراست نتیجہ یہ نکل آتا ہے کہ ہر کوئی اپنی اس بنیادی ضرورت کو اپنے ہی طریقے سے پورا کرنے کی حماقتیں کرتا ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ جو چیز اللہ نے رحمت بنائی ہے وہ زحمت کی شکل اختیار کرتی ہے۔ اگر ایک نوجوان لڑکی یا لڑکے کی بات کی جائے، تو وہ اپنے اندر پیدا ہونےوالی جنسی تبدیلیوں کے بارے میں بہت کم علم رکھتے ہیں۔ اپنے اندر آتش فشاں کی طرح پکنے والی طاقتوں کا ایک نوجوان اپنی کم عمری اور نا فہمی سے خاک میں ملا دیتا ہے۔ اس کو اس قسم کی باتیں سمجھانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ جائز جنسی تعلقات اور ناجائز جنسی تعلقات میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس کوتو بچپن سے صرف یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ لفظ sex اور semen کو زبان پر لانا حماقت کی بات ہے۔ اسی طرح ایک بالغ لڑکی menstruation اور pregnancy کے الفاظ سنتے ہی پسینے میں ڈوب جاتی ہے۔ جسے ہم bad conditioning کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جھوٹی پرتیں چڑھانے سے اندر کا لاوا کچھ وقت کے لئے شانت تو رہ سکتا ہے لیکن اس کے پھٹنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔(۲) عریانیت کا عروج : اس کو ہم sex stimulation کہتے ہیں۔ Adult content کو نابلاغوں اور نوجوانوں کے درمیان اس طرح پھیلایا جاتا ہےکہ اس کی لت لگ جاتی ہے۔ جب گھر سے لے کر بازار تک ہر جگہ عریانیت کا بول بالا ہو، تو ایسے میں جائز جنسی تعلقات قائم رہنا مشکل ہے۔ سڑکوں پر لگے پوسٹرز میں نیم عریاں لڑکیاں اور لڑکے ایک انسان کی جنسی حِس کو بڑھانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ جب صابن سے لے کر سینما تک ہر جگہ عریانیت کا ہی دبدبہ ہو، تو ایسے میں جائز جنسی رشتوں کا خیال رکھنا لا محال ہے۔ (۳) نفس پرستی: جو قوم نفس امارہ کی غلام بن جاتی ہے ،اس قوم کی ترقی کا خواب بھی چکنا چور ہوجاتا ہے۔ جب نفسِ امّارہ کی غلیظ غلامی دامن گیر ہوجاتی ہے تب وعظ و نصائح سے کچھ حاصل نہیں ہوپاتا ہے۔ میں خود ایک انسان ہوں،غیر شادی شدہ ہوں، وعظ و نصائح کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ لیکن جب بھی مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو احساس گناہ روح پر اپنا اثر ضرور چھوڑتی ہے۔ اس کے برعکس میں بہت سارےشادی شدہ افراد کو غیر محرم لڑکیوں یا عورتوں کے ساتھ ناجائز رشتوں میں بندھا ہوا پاتاہوں۔ یہ لوگ اپنے بچوں کی تربیت کے سامان کیسے مہیا کرتے ہیں،میں حیران ہوں۔ ظاہر ہے کہ جو باپ یا ماں نفس پرستی کے نشے میں چور ہو، وہ اپنی اولاد اور سماج کے دوسرے بچوں اور بچیوں کو کیسے رشد و ہدایت کی تلقین کرسکتے ہیں۔ بیوی اور شوہر ایک دوسرے کے لباس ہیں، ایک دوسرے کو روحانی سکون فراہم کرتے ہیں،لیکن آج اس کے برعکس ہیں۔(۴) ذمہ داریوں سے روگردانی : Oscar Wilde لکھتے ہیں کہ ایک شادی شدہ مرد اُن عورتوں کو پسند کرتا ہے جن سے اس نے شادی نہیں کی ہے۔ میں نے Wilde کے قول کو اپنی علمی وسعت سے ترجمہ کیا ہے۔ اگر یہ بات سچ مان لی جائے تو اس سے ہمارے سماج کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ آج کے زمانے میں شادی کے بندھن سے باہر اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں تاکہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا نہ جائے۔ ہر جگہ منہ مارنا اب بہت سارے شادی شدہ افراد کی عادت بن گئی ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا اُن کا شوق بن چکا ہے۔ یہی مکروہ عمل سماج کو شہوت کی راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں سے پھر واپسی ممکن نہیں ہوتی ہے۔(۵) دین سے دوری : میں معتدل راہ چنتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام میں جنسی معلومات کی بھرمار ہے، لیکن سخت پسند معاشرے نے ان باتوں کو سب سے اونچے شلف پر رکھا ہے تاکہ یہ نظروں سے اوجھل رہے،نہ معلوم کیوں؟ جس دن سے بچوں میں شعور آتا ہے، اس دن سے ہی بچوں کو جنسی تعلیمات کے علاوہ دنیا اور آخرت کی تعلیمات پر زور دینا چاہیےکہ کیسے ایک صحت مند انسان کے علاوہ صحت مند معاشرہ تعمیر کیا جاتا ہے، جس میں جنسی خواہشات کو جائز طریقوں سے پورا کیا جاتا ہے۔ جب شہوت انتہا کو پہنچ جائے، اُس وقت کن اصولوں پر عمل پیرا ہوناہے، یہ کام ہماری ذمہ داریوں میں سب سے بڑی ذمہ داری ہونی چاہیے تھی،لیکن اس کے برعکس مکتب سے لے کر گھر تک جنسی معلومات کی کوئی بھی سبیل نہیں کی جاتی اور سماج میں جنسی زیادتیوں اور حیوانیت کے واقعات کا رونما ہونا عام سی بات ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال میںہمیں ایک معتدل راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ نکاح شہوت کو ختم کرنے کا اچھا وسیلہ ہے۔ ہم سب کو چاہئے کہ نکاح کی تعلیمات کو عام کریں، نکاح کو سادگی سے انجام دینے کی کوششیں کریں، بےجا رسموں و رواج سے منہ موڑیں، گھر میں دینی ماحول پیدا کریں، باتوں کی تہہ تک جانے کی کوششیں کریں،دیکھا دیکھی سے پرہیز کریں، جو کچھ اللہ نے جو دیا اس پر خوش رہیں۔ مسجدوں میں شہوت پرست لوگوں کی مٹی پلید کرنے سے بہتر ہے کہ زمینی سطح پر ٹھوس قدم اٹھائے جائیں۔ اس دنیا میں ہر آن امید کی کرن چمکتی رہتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں، جہاں پر بھی عریانیت کے بازار گرم ہو، وہاں جانے سے پرہیز کریں، دینی اجتماعات کے علاوہ سائنسی کانفرنس کا انعقاد کرائیں۔ Symposiums اور conferences کے ذریعے ان مسائل پر غور کیا جانا چاہیے جن سے بیشتر آبادی نبررآزما ہے۔ بھوک اور غربت کو ختم کرنے کی سب کو پہل کرنی ہوگی، جو لوگ غربت اور بیماریوں کی وجہ سے گناہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ان کی مالی اور سماجی مدد کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ کہ صورت حال ہمارے لئے تباہ کُن ہوجائے، ہمیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اس گناہ کو روک کر اس کے پیچھے چھپی طاقتوں کو ایک کارآمد راہ پر گامزن کرنا چاہیے ۔ اللہ ہم سب کو سوجھ بوجھ کی دولت سے مالا مال کرے!
(رابطہ: حاجی باغ، بڈگام ۔7006031540)
[email protected]